دوسرا قدم۔۔۔

سرحد پار سے آنے والی خبریں اچھی نہیں۔ افغانستان ممکنہ طور پر ایک اور خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑا نظر آتا ہے جہاں ریاستی اور غیرریاستی اہداف کو نشانہ بنانے کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ اللہ کرے کہ حکومت اور افغان طالبان کے درمیان اپنی اپنی حاکمیت (برتری) قائم کرنے کی کوشش خانہ جنگی میں تبدیل نہ ہو لیکن اگر ایسا ہوا تو پھر امریکی افواج واپسی کے سفر میں پاکستان کے زمینی اور فضائی راستوں کا استعمال کریں گی کیونکہ یہ نسبتاً زیادہ محفوظ ہیں لیکن ایسا ہونے کے ساتھ ایک بھاری قیمت بھی جڑی ہوئی ہے۔ ماضی میں امریکہ کے ساتھ زمینی اور فضائی تعاون سے پاکستان کو کیا ملا؟ دہشت گردی کی جنگ میں اتحادی ہونے کے نتیجے میں شدید جانی و مالی اور معاشی و اِقتصادی نقصانات برداشت کرنے کے علاوہ پاکستان براہ راست دہشت گردی کا شکار رہا‘ جس کے اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ حقیقت حال یہ ہے امریکہ نے پاکستان کی دوستی‘ جانی و مالی اور معاشی نقصانات اور دہشت گردی سے متاثر ہونے کا خاطرخواہ اِحساس نہیں کیا اور پاکستان کے مؤقف (تحفظات) سے آگاہ ہونے کے باوجود بھی بھارت سے مراسم بڑھائے۔ بھارت کے ساتھ سول نیوکلیئر اور جدید دفاعی سازوسامان کی فروخت کے معاہدے کئے۔ امریکہ ہی کی ایما پر بھارت اسرائیل دوستانہ اور سفارتی تعلقات گہرے ہوئے اور بھارت نے اسرائیل سے دفاعی ٹیکنالوجی حاصل کی جس کا استعمال مقبوضہ کشمیر میں کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کی اِس ’طوطا چشم (ناقابل اعتماد) فطرت‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان نے زمینی اور فضائی راستوں کے استعمال سے متعلق معاہدوں پر نظرثانی کی لیکن امریکہ کی اصلیت عیاں ہونے تک بہت دیر ہو چکی تھی اور امریکہ پاکستان سے اپنے مقاصد حاصل کر چکا تھا۔ ایک مرتبہ پھر امریکہ کو پاکستان کی ضرورت پڑی ہے تو یقینا فیصلہ ساز ماضی کی غلطیاں نہیں دہراہیں گے اور امریکی قیادت بھی جانتی ہے کہ ’سی پیک‘ اور ’بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو‘ کا حصّہ بننے کے بعد پاکستان کی ترجیح چین سے دوستی اور تعلقات ہیں‘ جو اپنی سرزمین فوجی اڈوں کے لئے کسی بھی صورت نہیں دے گا یہی وجہ رہی کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران امریکہ نے فضائی اڈے قائم کرنے کیلئے وسطی ایشیائی ریاستوں سے رجوع کیا تاہم وہاں بھی روس کا بڑھتا ہوا عمل دخل (اثرورسوخ) آڑے آیا۔ امریکہ کی پہلی کوشش یہی تھی کہ وہ افغانستان سے نکل کر پاکستان میں بیٹھ کر خطے پر حکمرانی کرے اور باقی ماندہ افغان جنگ پاکستان میں بیٹھ کر لڑی جائے مگر نائن الیون (سال دوہزار ایک) کے مقابلے آج صورتحال اِس لحاظ سے مختلف ہے کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت افغانستان میں ’پائیدار قیام امن‘ چاہتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کسی حد تک دہشت گردی پر قابو پایا جا چکا ہے جسے امریکہ کا ساتھ دے کر دوبارہ خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ پاکستان کیلئے افغانستان کی سرزمین دلدلی ہے اور وہ اِس میں اپنا ”دوسرا قدم“ نہیں رکھنا چاہتا۔