صبح کا بھولاہوا گھر شام نہ آیا ۔۔۔۔

یہ تو آفاتِ زمانہ ہیں۔بجلیاں ایک ذرا سے موبائل میں جمع ہیں۔اس آئینے میں یار دوستوں کی تصاویر ہیں۔جب ذرا گردن جھکا لی دیکھ لیں۔حرکت کرتی ہوئیں بولتی چالتی۔کیا ہے جو یہاں نہیں ہے۔گوگل الگ سے ایک تلوار جو تیز ہے۔ذرا ہاتھ پھیرا تو انگلیاں کٹ جائیں۔ فیس بک الگ سی چھری کہ اک ذراانگلی لگی انگلی کٹ گئی۔وٹس ایپ کی الگ کہانی ہے۔ جہاں پھول بھی ہیں اور کانٹے بھی۔ پھولوں کی تو خوشبو سونگھ لی اور کانٹوں نے ہتھیلیوں کو کتر ڈالا۔ پھر فیس بک ہے جس کوہاتھ لگااور ہاتھوں کو بھول گیا کہ ہم بھی جسم کے ساتھ چِپکے ہیں اور چُپکے سے موجود ہیں۔پھر یو ٹیوب کی دنیا ہے۔ بس ہتھیلی پر آئینہ دھرا ہے کہ جس میں پوری دنیا کی سیر کرو۔ملک ملک دیکھو وہاں کا جغرافیہ آبادی وہاں کا رہن سہن مذہب اور جو جی چاہے گنگھال لو۔نئی دنیائیں ہیں اورپانی کے نہیں خیالوں کے جہاز ہیں اور اس میں سواری ہے۔اگرچہ کہ بھاری ہے مگر اپنے موڈ کی ملائمت میں ہمواری ہے۔ایک نشہ سا طاری ہے۔بس اپنے آپ کو فرمان جاری ہے۔بچہ جمورا گھوم جا اور گھومتے جاتے ہیں۔وہاں میسیجنر ہے یہ نئی سی دنیا ہے۔اب کس کس محاذ پر لڑیں کس کس اینڈ کو سنبھالیں کہیں چوکے چھکے لگانے کا موقع ہے اور کہیں خود آؤٹ ہوجانے کی مصیبت ہے۔پھر ایک تو نہیں۔ایک ہے اور دوسرے سے بڑھ کر ہے۔ایک سے ایک جدا اور دوسرے جداگانہ سٹوری ہے۔فیس بک پر پانچ ہزار دوستوں کی مقررہ تعداد ہے۔جن میں بعض ساتھ چھوڑ بھی جاتے ہیں۔ تو کیا ہوا۔”نئے جب دوست ملتے ہیں پرانے بھول جاتے ہیں“۔فرینڈ ریکویسٹ کی دنیا میں ایک سے ایک نیا دوست دوستی کے درپے ہوتا ہے۔بعض تو آشکارا ہوتے ہیں اور بعض بچوں کی تصویروں کے پروفائل پک کے پردہ نشین ہوتے ہیں۔ اپنی شناختی تصویر میں احساس ہونے نہیں دیتے کہ اصل میں کون ہیں۔ذرا ایک دو یاروں کی کمی ہوئی وہاں سے نئے دوستوں کو ساتھ میں ملا لیا۔ کہتے ہیں جاؤ یار ”تونہیں اور سہی اور نہیں اور سہی“۔کیونکہ بڑی لمبی ہے زمیں۔سو ہمارا تو پانچ ہزاری کوٹا ہر وقت بھرا پُرا رہتا ہے۔پھر پورے کا پورا رہتا ہے۔سو ہمارا پوٹا بھی پُر رہتا ہے۔ان پانچ ہِزار کی تعداد میں معلوم نہیں اس سفر میں کون کون مہربان ساتھ ہے اور کون دور رہ کر ساتھ دے رہاہے۔”عمر بھر کون بھلا ساتھ دیا کرتا ہے۔ میں جانتا ہوں مگر تھوڑی دور ساتھ چلو“۔یہاں فیس بک تو کوئی تھوڑی دور ساتھ چلے تو سمجھو کہ عمر بھر کا ساتھ ہے۔ تھوڑا ہمدری کے دو ایک بول بولے تو اس پر مسیحائی کا گمان ہوتاہے۔ابھی ہم نے انسٹا گرام اور ٹویٹر کی پُر خار راہوں کا سفر ہی نہیں کیا۔ کیونکہ ان محاذوں کو بھی سنبھال لیں تو ہمارے لئے بہت بڑی بات ہے۔بلکہ جن کاذکر کیا ان آفاتِ زمانہ میں ایک کی بھی ڈرائیونگ کر لیں تو سمجھو کہ خوب توپیں چلا لیں۔ لیکن کسی بحث میں نہیں پڑنا صرف تماشا دیکھنا ہے۔ اگر ایک جگہ رک گئے اور آگے نکل نہ سکے تو وہیں کے وہیں رک جائیں گے۔ بحث و مباحثوں کے اور مذاکروں کے سلسلے طویل سے طویل تر ہو جائیں گے۔ بندہ اس دلدل میں سے نکل کر واپس نہیں آ سکے گا۔سو تھوڑادیکھنا ہے اک لحظہ سوچنااور اگلے محاذوں کے لئے روانہ ہونا ہے۔کیونکہ اتنا وقت کسی کے پاس نہیں ہوتا کہ ہر ایک کو جواب دیں۔خواہ ہاں یا نہ میں ہو۔ ایک دوست نے کہا شاید آپ مجھ سے ناراض ہیں۔میں نے تین روز کے بعد ان کو جواب دیاکہ ایسا نہیں ہے۔مگر ان کو تسلی نہ ہوئی انھوں نے اپنے گلے شکوے کو بار بار دہرا کر ہمارا تو چھوڑ اپنا قیمتی وقت ضائع کیا ہوگا۔.ہم نے پھر تین چار روز کے بعد ان سے ہمکلام ہو کر عرض کیا ایسی بات نہیں۔ بس وقت نہیں ملتا۔ اب وہ وقت نہ ملنے کی تفصیلات جاننا چاہتے تھے۔ مگر ہم وقت نکال نہ پائے کہ ان کو جواب دیتے۔اب ایک ہی دوست کے ساتھ جواب در جواب کا سلسلہ شروع کر دیں تو باقی حضرات کو وقت کیسے دے پائیں گے۔ سو کوئی بھی سوشل میڈیا کا میڈیم ہو شکریہ کالفظ لکھ دیتے ہیں۔ کبھی ہاں کہہ دیتے ہیں کبھی اوکے کہہ کرمعاملہ اوکے کر دیتے ہیں۔ بس یہی مشق جاری ہے۔سوچتے ہیں کہ کچھ کو توجواب دینا ہوتاہے اورکچھ اپنی معلومات کے لئے کبھی یوٹیوب میں گھس جاتے ہیں۔ یہ تو ایسی دنیا ہے کہ فراز کاشعریاد آتا ہے ”یہ جدائیوں کے رستے بڑی دور تک گئے ہیں۔ جو گیا وہ پھر نہ آیا میری بات مان جاؤ“۔پھر فیس بک پر ساتھ چھوڑ جانے والوں کیلئے فراز کی اسی غزل کا شعر کہ ”کسی بے وفا کی خاطر یہ جنوں فراز کب تک۔جو تمھیں بھلاچکاہے اسے تم بھی بھول جاؤ“۔اس قسم کی دنیائیں ہو ں۔ وہ دنیائیں جو سات نہ ہوں سات سو ہوں تو بندہ کس کس دنیا میں خوار و زار گھومتا پھرے۔بھولا ہوا شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولاہوا نہیں کہتے۔ مگر یہاں تو جو ایک بار گیا وہ بھول گیاکہ گھر کس چیز کا نام ہے۔یعنی ان سوشل میڈیا کی بھول بھولیوں میں گھومنے پھرنے کی بجائے اگر اپنی پرانی دنیا میں چند دن رہنے کا تجربہ کیا جائے کہ جہاں سوشل میڈیا کا نام و نشان نہیں تھا۔ زندگی ایک مختلف نہج پر چل رہی تھی اور زیادہ تر معاملات  آمنے سامنے ملاقاتوں پر ہی طے ہوتے تھے اور دیکھا جائے تو آج کے مقابلے میں زیادہ پرسکون ماحول تھا۔”صبح کا بھولاہوا گھر شام نہ آیا۔میں راہ پہ اے گردشِ ایام نہ آیا“