قانونی ’عدم تحفظ‘۔۔۔۔۔۔۔

عالمی‘ ملکی اور سوشل میڈیا پر رواں ہفتے زیربحث موضوعات ”آزادیئ صحافت اور صحافیوں کا تحفظ“ ہے‘ جس سے متعلقصورتحال کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قومی اور سندھ اسمبلی میں 2 ایسے قوانین پیش کئے گئے ہیں جن کا بنیادی نکتہ اور صحافیوں کی وہ تحاریک ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے کبھی دبے لفظوں اور کبھی احتجاجی تحریک کی صورت چل رہی ہیں۔ مذکورہ بل پاکستان میں کام کرنے والے صحافیوں اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ کارکنوں کی حفاظت سے متعلق ہیں لیکن صحافیوں کے تحفظ کیلئے مجوزہ قانون کو قومی اور صوبائی سطح پر متعارف ہونا کافی نہیں۔ عالمی تنظیم ’اِیمنسٹی اِنٹرنیشنل‘ کے مطابق پاکستان کا شمار اُن چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں صحافیوں کو زبانی کلامی اور جسمانی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ صحافیوں کی حفاظت کا مجوزہ قانون قومی اسمبلی میں پیش کرنا انتہائی اہم پیشرفت ہے۔ یہ مسودہئ بل وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیرین مزاری کی جانب سے صحافیوں اور ماہر قانون سے مشاورت کے بعد ترتیب دیا گیا جبکہ اسی قسم کا ایک اور بل تیئس مئی دوہزاراکیس کو سندھ حکومت کی جانب سے صوبائی اسمبلی میں بھی متعارف کروایا گیا ہے۔ مذکورہ دونوں مسودہئ قانون میں صحافیوں کو اپنی معلومات کے ذرائع ظاہر نہ کرنے سے متعلق استثنیٰ حاصل ہے اور آئین کے آرٹیکل اُنیس کے تحت صحافیوں کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی میں پیش ہونے والے بل کے مطابق حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ دہشت گردی یا قومی سلامتی سے متعلق موجودہ یا مستقبل کا کوئی بھی قانون صحافیوں کے کام میں دشواری پیدا کرنے کیلئے اور ان کو خاموش کروانے کے لئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اس مجوزہ قانون کے تحت کمیشن بھی قائم کیا جائے گا جسے سول کورٹ کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ اس کمیشن میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے ہر صوبے سے ایک یعنی کل چار نمائندے شامل ہوں گے۔ ایک نمائندہ نیشنل کا جبکہ ایک نمائندہ ہر صوبائی پریس کلب سے شامل ہو گا جبکہ وزارت اطلاعات اور انسانی حقوق کا بھی ایک ایک نمائندہ اس کمیشن کا حصہ ہو گا۔ اس کمیشن کا چیئرمین ایک ریٹائرڈ جج یا قانون اور انسانی حقوق میں بیس سال کا تجربہ رکھنے والا شخص ہو گا۔ اگر کسی صحافی کو ہراساں کئے جانے یا تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا واقعے پیش آتا ہے تو اس واقعے کی تفصیلات چودہ روز کے اندر کمیشن کے سامنے پیش کی جائیں گی اور کمیشن چودہ روز میں اس کے متعلق فیصلہ کرے گا۔ کمیشن کو اختیار حاصل ہے کہ وہ واقعے کی تحقیقات کے دوران کسی بھی شخص کو طلب کر سکتا ہے اور کسی بھی ادارے سے اس کے متعلق دستاویزات یا رپورٹ طلب کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس مجوزہ قانون میں  اداروں کو پابند بنایا گیا ہے کہ ہر صحافی کو نوکری پر رکھنے کے ایک سال کے اندر انہیں ذاتی حفاظت سے متعلق تربیت دی جائے۔ کیا صحافیوں کی حفاظت کا مجوزہ قانون ان کو تحفظ فراہم کر پائے گا؟ صحافیوں کی تنظیمیں قومی اسمبلی میں پیش ہونے والا مذکورہ بل کو سندھ اسمبلی میں پیش ہونے والے بل سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں کیونکہ سندھ اسمبلی کے بل میں جو کمیشن تجویز کیا گیا ہے اس میں صحافی تنظیم‘ وکلأ کے نمائندے (بار کونسل) وغیرہ کے عہدیدار بھی شامل کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے کمیشن میں ورکنگ جرنلسٹ کی اکثریت نہیں رہی اور کوئی بھی فیصلہ اکثریت رائے سے ہوا تو ممکن ہے کہ وہ صحافیوں کے خلاف ہو تاہم قومی اسمبلی کے قانون سے سندھ اسمبلی کے قانون کا موازنہ کیا جائے تو جو ایک نکتہ سندھ اسمبلی کے قانون میں بہتر نظر آتا ہے وہ کمیشن کے ازخود (سوموٹو) نوٹس لینے کا اختیار ہے اور سندھ سے تعلق رکھنے والی صحافیوں کی تنظیمیں سمجھتی ہیں کہ کمیشن میں دیگر تنظیموں کے نمائندوں کی شمولیت اس کو تقویت دی گئی ہے۔ مذکورہ دونوں قوانین (قومی و سندھ اسمبلی) کا خلاصہ یہ ہے کہ اِن کی منظوری سے بھلے ہی پاکستان میں صحافیوں کے خلاف تشدد (جرائم) کا سلسلہ ختم نہ ہو لیکن کم سے کم یہ تشدد (جرائم) کرنے والے عناصر کی نشاندہی ہو سکے گی۔ مذکورہ قوانین میں صحافیوں کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے قوانین بنانے سے صحافیوں یا کسی بھی طبقے کے خلاف ہونے والے جرائم ختم یا کم نہیں ہوں گے کیونکہ ایسی مثالیں بہت کم ہیں جن میں قوانین کی وجہ سے صحافی یا غیر صحافی شہری طبقات خود کو محفوظ تصور کرتے ہوں۔