اچھی خبر یہ ہے کہ اسلا می نظر یاتی کونسل کی سفارش پر حکومت نے جمعہ کے خطبات کے لئے 100مو ضو عات کی فہرست تیار کی ہے جس کو ملک کے اندر جا مع مسا جد میں خطیبوں کے ذریعے نما ز جمعہ کے اجتما عات میں سنا یا جا ئے گا ان مو ضو عات کا تعلق معا شرتی رواداری، اخلا ق حسنہ، حقوق العباد اور مذہبی ہم آہنگی کے ساتھ اسلا می بھا ئی چارے کو فروغ دینے سے ہے وزارت مذہبی امور ایک مر حلہ وار پرو گرام کے ذریعے اس منصو بے کو نا فذ کر یگی اس کے بعد سعودی عرب، متحدہ عرب اما رات، کو یت اور عراق کی طرح مملکت خدا داد پا کستا ن کی مسا جد سے بھی ایک ہی مو ضوع پر خطبے دیئے جا ئینگے اور خطبے کا دورانیہ بھی ایک جیسا ہو گا اس وقت کراچی سے چترال اور چمن سے خیبر تک فکری ہم آہنگی اور معاشرتی رواداری کے مو ضوع پر اسی نو عیت کے خطبوں کی ضرورت ہے تا کہ ذہنی انتشار اور فکری افرا تفری کا شکار ہونے والی قوم پھر سے یکجا ہو جا ئے خصو صاً سوشل میڈیا کی بے ہنگم مہم کا مقابلہ کر نے کیلئے اس طرح کی حکمت عملی بہت ضروری ہے چند سال پہلے تک فکری انتشار کا کام صرف افوا ہوں اور زبا نی کلا می پرو پیگنڈے سے لیا جا تا تھا‘2021ء میں سوشل میڈیا نے یہ کام سنبھا ل لیا ہے فیس بک، ٹو ئٹر، انسٹا گرام اور دیگر ذرائع نے افوا ہوں کو نئی جہت دی ہے حکومت کے خلا ف، کسی گروہ کے خلاف کسی سیا سی لیڈر کے خلا ف یا کسی سما جی شخصیت کے خلا ف پرو پیگنڈے کے لئے سوشل میڈیا کو کسی روک ٹوک اور چھا نٹی کے بغیر آزادانہ استعمال کیا جا رہا ہے حکومت کے اچھے اقدامات کو مشکوک بنا یا جا تا ہے‘ مسلما نوں کے ذہنوں میں شک کرنے کا بیج بو یا جا تا ہے غرض ”جتنے اکا ؤنٹ اتنی باتیں“ اب کوئی یہ نہیں کہے گا جتنے منہ اتنی باتیں کسی پلیٹ فارم سے کسی سٹیج کو استعما ل کر کے تقریر کر نے والا انتظامیہ کو اچھی طرح معلو م ہوتا ہے پکڑا بھی جاتا ہے سزا بھی پا تا ہے مگر سوشل میڈیا پر ایک شخص جر منی، فرانس، امریکہ، بر طا نیہ میں بیٹھ کر افواہ اڑا دیتا ہے یا دو بئی اور سنگا پور میں بیٹھا ہوا شخص لمبی چھوڑتا ہے پا کستان میں دو چار بندے سوچ سمجھ کر مخصوص مفا دات کیلئے اس کی حمایت کر تے ہیں پھر ہزاروں صارفین محض دل لگی اور وقت گزاری کے لئے بلا سوچے سمجھے اس پوسٹ پر اوٹ پٹا نگ اور الل ٹپ تبصرے شروع کر دیتے ہیں اس کو وائرل کیا جاتا ہے ٹرینڈ بنا یا جا تا ہے اس طرح ایک فضول بحث ہفتوں اور مہینوں تک جاری رہتی ہے قوم کو اس طرح کے فکری انتشار سے بچا نے کیلئے نظر یاتی مملکتوں نے بیرونی اثرات والے فیس بک، انسٹا گرام اور ٹوئٹر پر پا بندی لگا کر اپنے ملک کیلئے محدود اسلوب کا الگ سوشل میڈیا متعارف کر ایا ہے آپ کو روس، چین اور شما لی کوریا میں پا کستان والا فیس بک نہیں ملے گا ان میں ہر ملک کا الگ فیس بک ہے جو ان کے نظر یا تی تشخص اور قو می ضرورتوں سے ہم آہنگ ہے اس میں خبروں، پوسٹوں اور تبصروں کی چھا نٹی کا با قاعدہ نظا م مو جو د ہے ان ملکوں میں سوشل میڈیا پر قو می مفادات اور نظر یا تی تشخص کے خلا ف کوئی پو سٹ یا کوئی کمنٹ نہیں آسکتا جو قوم کی ہم آہنگی کو پارہ پا رہ کر سکے۔یہ بات خوش آئند ہے کہ حکومت نے کسی نہ کسی سطح پر فکری ہم آہنگی کے بیج بو نے کا اہتما م کیا ہے‘ بات سوشل میڈیا تک پہنچ جا ئیگی سوشل میڈیا کو لگا م دینے کے بعد تعلیمی نصاب اور تعلیمی اداروں کے طرز تدریس کی بھی نو بت آئیگی، یکساں نصاب تعلیم کا چر چا ہو گا قوم کو فکری یک جہتی کا ثمر مل جا ئے گا پھر جتنے منہ اتنی باتیں اور جتنے اکا ؤنٹ اتنی باتیں سننے کو نہیں ملیں گی۔
اشتہار
مقبول خبریں
روم کی گلیوں میں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ترمیم کا تما شہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ثقافت اور ثقافت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
فلسطینی بچوں کے لئے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
چل اڑ جا رے پنچھی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ری پبلکن پارٹی کی جیت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی