امریکہ اسرائیل تعلقات اتنے گہرے کیوں؟۔۔۔۔۔

اتوار کو”چراغ راہ“ میں حماس اسرائیل معاہدے پر لکھے گئے کالم پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک طالب علم نے سوال کیا کہ امریکہ اسرائیل کی اتنی پشت پناہی کیوں کر رہا ہے اور اسرائیل سے امریکہ کے کون سے مفادات جڑے ہوئے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے ہر سرد و گرم صورتحال میں اسرائیل کی مسلسل حمایت اور اس کی خاطر جمہوری اصولوں اور اپنے عالمی ساکھ کی قربانی دینے کیلئے ہر دم تیار رہنے کے بعد ہر کوئی جاننا چاہتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان عرصے سے اتنا گہرا تعلق کیوں ہے؟امریکہ اور مغربی ممالک اسرائیل کے قیام سے اب تک فلسطین پر اس کے قبضے اور ظلم وستم کی حمایت کرتے رہے ہیں اور اپنے ویٹو کا استعمال کرکے اسرائیل کو ہمیشہ فلسطینیوں پر ظلم اور ان کی جبری بیدخلی اور یہودیوں کی غیر قانونی آبادکاری پر مذمتی قراردادوں اور پابندیوں سے بچاتے آئے ہیں۔ حالیہ جنگ کے دوران بھی وہ اسرائیل کے حق دفاع پر تو زور دیتے رہے مگر علانیہ طور پر اسرائیل سے فائر بندی کا بھی نہ کہہ سکے۔ اور امریکہ کو اسرائیل کیلئے یہ بڑی بے عزتی بھی برداشت کرنا پڑی کہ سلامتی کونسل میں اسرائیل کی حمایت میں اس کی قرارداد کو صرف ایک ووٹ ملا جو اس کا اپنا تھا۔گیلپ کے تازہ سروے کے مطابق ستر فیصد امریکی اسرائیل اور تیس فیصد فلسطینی اتھارٹی کی حمایت کرتے ہیں۔ مگر ایسا کیوں ہے؟عام طور پر کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی مضبوط اسرائیل نواز لابی کے اثر ورسوخ، امریکہ اسرائیل میں نظریاتی قربت اور کمیونزم کے خلاف ان کے باہمی تعاون، مشترکہ مفادات اور مشترکہ دشمنوں کے باعث امریکی عوام میں اسرائیل کی گہری حمایت کی وجہ سے ہر امریکی حکومت اسرائیل کی حمایت اور اربوں ڈالرز کی فوجی، مالی اور مسلسل سفارتی امداد پر مجبور ہوتی رہی ہے۔ امریکہ کے اندر عمر رسیدہ افراد، دائیں بازو کے انتہاپسندوں، سفید فام افراد اور ری پبلکن پارٹی میں اسرائیل کی حمایت سب سے زیادہ ہے۔ جبکہ لاطینی، افریقی اور نوجوان امریکیوں اور ڈیموکریٹک پارٹی کے اور دیگر بائیں بازو سے وابستہ افراد میں اسرائیل کی حمایت نسبتاً کم ہے۔اسرائیل توانائی کے وسائل سے بھرے اور تزویراتی لحاظ سے اہم مشرق وسطٰی میں خود کو مغربی مفادات کا نگران اور تیل اور گیس کی رواں فراہمی کا ضامن دکھاتا آیا ہے۔ یہ خطے سے خفیہ معلومات اکٹھی کرکے مغربی ممالک کو فراہم کرتا رہا ہے اور خطے میں مغربی مفادات کیلئے خفیہ آپریشن کرتا آیا ہے۔ سرد جنگ کے دوران بھی سویت یونین اور سوشلزم کے حامی ممالک سے بھرے خطے میں اسرائیل ہی امریکی و مغربی مفادات کا رکھوالا تھا۔بڑے ذرائع ابلاغ میں حاصل اثر و رسوخ اور مسلسل پروپیگنڈے سے کام لیتے ہوئے اسرائیل امریکی عوام کے ذہنوں میں یہ نظریہ راسخ کرچکا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی شاہی ریاستوں کے درمیان وہی جمہوریت، آزادیوں، حقوق انسانی اور مذہبی روداری کا واحد مرکز و ضامن ہے۔ اور دوسری جنگ عظیم اور ہولوکاسٹ میں یہودیوں پر مبینہ ظلم و ستم کے اسی مسلسل پروپیگنڈے کے نتیجے میں بھی اسرائیل اور یہودیوں سے ہمدردی میں اضافہ ہوگیا اور سامی مخالفت کے نام پر اس کی مخالفت یا اس پر شک و شبہ پیدا کرنے کو قابل دست اندازی پولیس جرم بنانے کے بعد اسرائیل اور یہودیوں کی مخالفت مشکل ہوگئی۔ اگرچہ پہلی بار امریکی صدر جان ایڈمز نے دو سو سال پہلے یہودیوں کیلئے الگ ریاست کی بات کی تھی۔ صدر ابراہم لنکن نے بھی کہا تھا کہ یہودیوں کو فلسطین میں ان کے قومی گھر کے ذریعے ظلم و ستم سے نجات مل سکتی ہے اور 1948 میں اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد امریکی صدر ہیری ٹرومین اسے تسلیم کرنے والے پہلے شخص تھے لیکن اس دوران تعلقات اتار چڑھاؤ بھی آیا۔ صدر آئزن ہاور 1956 کی سوئیز جنگ کے دوران اسرائیل کے مخالف تھے اور 1967 تک اسرائیل کا سب سے قریبی اتحادی اور اس کی بنیادی فوجی مدد کا وسیلہ امریکہ نہیں فرانس تھا مگر 1967 کی جنگ میں اسرائیل کی جیت کے بعد امریکہ اسرائیل کو ایک کلیدی اتحادی,,تزویراتی اثاثے اور مشرق وسطی میں سوویت اثرورسوخ کے خلاف کلیدی حفاظتی حصار کے طور پر دیکھنے لگا اور اس کی وسیع حمایت شروع کر دی۔ امریکہ اسرائیل تعلقات میں گرم جوشی کا سہرا امریکہ میں اسرائیل نواز لابی خصوصا امریکی اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی کو جاتا ہے۔ اس طاقت ور ادارے کے انتہائی اثر ورسوخ کے حامل اور دولت مند ساٹھ ہزارارکان اور بیس ملین ڈالرز کا سالانہ بجٹ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں ستر لاکھ سے زیادہ یہودی ہیں اور فوربس ورلڈ کی ارب پتی فہرست میں شامل اوپر والے 40 میں سے 18 یہودی ہیں۔ یہودی امریکہ کی سب سے بڑا تارکین وطن گروہ ہیں۔ ان کا کاروبار، مالیات اور سیاست پر قبضہ اور گہرا اثر ہے۔ اسرائیل نواز پالیسی کو دونوں بڑی امریکی سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے اور یہ ان کی مالی تعاون کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ بہت سے یہودی امریکی انتظامیہ میں اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے دوران اس کے داماد جیرڈ کشنر، جو ایک یہودی تھے، کو مشرق وسطی کا مشیر مقرر کیا گیا تھا جس نے چار سال تک اس خطے میں امریکی پالیسی کی تشکیل کی اور اسرائیل نوازی کی انتہا کردی یہاں تک کہ امریکی سفارتخانہ بھی تل ابیب سے متنازعہ اور مقبوضہ بیت المقدس منتقل کروادیا۔مندرجہ بالا باتوں سے قطع نظر اصولوں، اخلاقیات، انسانیت اور انصاف کا تقاضا کہ عالمی برادری اسرائیل کے ظلم کو لگام دے، فلسطینیوں پر ظلم وستم اور ان کی زمینیں ہتھیانے کا سلسلہ ختم کروائے، تمام مقبوضہ فلسطینی علاقے خالی کروائے اور ریاست فلسطین کو تسلیم کروائے۔