چڑیا اور چڑا مشکلوں سے تنکا تنکا جوڑ کر گھر بناتے ہیں۔ ننھی سی چونچ میں دور پار یا قریب کہیں سے بھی تنکے گھاس پھونس اٹھا اٹھا کر درخت کی اونچی شاخوں پر غیروں کے ہاتھوں سے محفوظ کر کے اپنا آشیانہ بناتے ہیں۔ مگر ان کو معلوم نہیں ہوتا کہ یہ تیز چلتی ہوئی ہوائیں اس گھر کو تباہ کرنے کے لئے سرگوشیاں کر رہی ہیں۔وہ نہیں جانتے کہ ابھی بادل آئیں گے بجلی چمکے گی اور اچانک ایک شعلہ کوند جائے گا۔ یوں اس نشیمن کو آگ لگ جائے گی۔ یہ جل کر خاکستر ہو جائے گا۔مگر باغبان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ درختوں کی شاخوں میں کھنچے ہوئے اس گھر کو بچا لے اور ہواؤں سے چھپا لے۔ وہ چاہتا ہے کہ چمن میں بجلی کو آنے نہ دے اور کسی انسان یا کسی پرندے کو اس آشیانے کو ہاتھ لگانے نہ دے۔ مگر جو ہوتا ہے وہ ہو تاہے۔ وہ شعر یاد آ رہا ہے ”کیا اس لئے چنوائے تھے تقدیر نے تنکے۔ بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے“۔ باغبان کا کردار ایک چمن کو ہرا بھرا رکھنے اور اس کی حفاظت کرنے میں بہت اہم ہوتا ہے۔ مگر جب باغبان ہی باغ کے دشمن بن جائیں تو پھر کون باہر سے آکر اس چمن کی حفاظت کرے گا، باغ کے راکھے ہمارے چمن کے رکھوالے اگر بجلیوں کے ساتھ مل جائیں تو پھر سبزہ زار کے اندر زندگی کی گزران مشکل مشکل تر ہو جاتی ہے۔ ”کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے“ جب ایسی صورت ِ حال ہو تو پھر مشکل پہ ایک اورمشکل آن پڑتی ہے۔باغوں کے راکھے اگر خود چور بن جائیں اور باغوں کے پھلوں کو کترنا شروع کر دیں تو باغ کی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔”وہ بدسرشت پرندہ تھا اس کا مسلک ہی۔ جو پک گئے ہیں وہ پھل داغدار کرنا تھا“(سجاد بابر)۔مگر کیا ہے کہ باغ کے رکھوالے پر اعتبار کرنا پڑتا ہے۔ اگر نہ کریں تو زندگی دشوار ہو جائے۔ مگر دوسری طرف اگر باغبان دھوکا دے جائے تو زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ خود ایک باپ نے غربت سے تنگ کر آکر اپنے بچوں کو دریا میں پھینکا۔ وہ باغباں تھا۔مگر اس باغ کو آگے تک لے کر چلنا اس کے بس میں نہ تھا۔اس طرح کے کئی اور باغبان ہیں جو اپنے گھر کو ماں اور باپ بن کر سجاتے سنوارتے ہیں مگر ان کو معلوم نہیں ہوتا کہ آسمان کی شعلہ اگلتی بجلیاں ان کا پیچھا کر رہی ہیں۔ عنقریب وہ ان کے گھروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گی۔پھر اس سبزہ و چمن ہی کو جلا کر راکھ کر دیں گی۔چڑیا چڑے کی کہانی بہت پرانی ہے۔یہ کھیل ازل سے جاری ہے۔ کبھی چڑیا چڑیا نہیں رہی انسان بن جاتی ہے اور کبھی چڑے کو چڑا نہیں کہیں اس گھر کا سربراہ کہیں گے۔ لیکن ان چڑیا اور چڑے کے درمیان تو کبھی دشمنی دیکھی نہیں گئی۔ ہاں مگروہ انسان جومل کر اپنے بچوں کی خاطر اپنے گھرکو چلا رہے ہیں۔ وہ کبھی کبھار ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہو جاتے ہیں پھر اپنی غیرت اور انا کے جال میں پھنس کر اپنا گھر خود ہی اپنے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کی بجلیوں سے پھونک ڈالتے ہیں۔کیونکہ ان کے درمیان میں شاید کوئی تیسرا آ جاتا ہے۔بھلا لکڑی کا کرداراس نشیمن کو بجلی سے بچانے کے لئے معاون رہا ہے۔درخت کی یہ شاخیں یہ لکڑی تو خود اس آگ کو ہوا دے گی۔پھر اس بھڑک کو اور بھڑکائے گی۔ عام طور سے باغ کے اندر جہاں پرندے ہوں اور ان کے گھر ہوں وہاں باغبان کی کوشش ہوگی کہ وہ ان گھروں تک کسی کا ہاتھ پہنچنے نہ دے۔ کیونکہ اب اس میں بچے چوں چوں کر رہے ہوتے ہیں۔ چڑیا چڑا بھلا خود اس گھر کو کیوں تباہ کریں گے۔ کیونکہ ان کو اپنے بچے عزیز ہوتے ہیں۔ مگر قسمت کی خرابی اگر آڑے آجائے۔ پھران غیروں کے ہاتھ ان گھونسلوں تک پہنچ جاتے ہیں۔اس وقت گھونسلے کے اندر چوں چوں کرتے ہوئے بچوں کی کسی کو پروا نہیں رہتی۔ شکاری شکار کرنے کی لالچ میں ان گھونسلوں کے پرندوں کو اپنے گھر کی چھت پر باجرا ڈال کر قید کرے گا۔ پھر وہاں دور گھونسلے میں ان کے بچے بھوک سے تلملاکر مر جائیں گے۔مگر ان کو جنھوں نے پرائے گھر خراب کئے ہوں گے ذرا برابر پروا نہیں ہوگی۔گھر میں اگر کہیں چڑیوں کا گھونسلہ ہو تو گھر کے ارکان کو بھی اس کا خیال کرنا چاہئے۔ جب وہ جالے اتارنے والی برش کے ساتھ جالے اتاریں تو چڑیا کے گھونسلے کو اس وقت ضرور چھوڑ دیں۔ جب اس کے اندر سے چڑیا کے بچوں کی چوں چوں کرتی ہوئی آوازیں آ رہی ہوں۔کل وقتی نہیں جزوقتی طور پر سہی۔ تاکہ بچے اڑنے کے قابل ہو جائیں۔کیونکہ چڑیا اور چڑا ہو یا مرد اور عورت بچے تو سب کے بچے ہوتے ہیں۔ جالہ بے شک لے ڈالو مگر چڑیا کے گھونسلے کا خیال ضرور رکھو۔