چھوٹا سا تو شہر ہے۔مگر کسی کے کنٹرول میں نہیں آ رہا۔ ٹریفک کا وہ سیلاب ہے کہ جس کے آگے جتنے بندھ باندھو یہ ایک بے پایاں بہاؤ ہے۔ جس کے آگے ٹریفک کارندے اگر کھڑے ہوں تو وہ بھی دھکے کھائیں۔مگر حیرت ناک بات یہ ہے کہ یہ رش یہ ہجوم گاڑیوں کی بھاگم دوڑی مصنوعی ہے۔پہلے خاص اندرون شہر کی شکایت عام تھی کہ جہاں بھیڑ بھاڑ کا عالم ہوتا ہے۔ مگر اب تو جس سمت کو نکل جائیں مگر نہیں صرف دیکھ بھی لیں۔ اگر خود نہ جائیں تو بہتر ہے۔ ان راستوں پر نظر ہی دوڑالیں تو نگاہ بھی وہاں کی دھکم پیل میں جا کر الجھ جائے۔ پھر یوں الجھے کہ واپس نہ آسکے۔اب تو جو سڑک ہے وہ ٹریفک جام کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ اگرکوئی احتجاج ہے تو بس پھرعین سڑک پرصبح سے شام ہو جائے گی۔ گھنٹوں اسی سڑک پر گرمی کے تاؤ میں جلتے رہیں گے۔اس شہر میں کراچی جیسا ٹریفک نہیں۔ پھر نہ ہی یہاں لاہور کا سا ٹریفک ماحول ہے۔ پھر یہ تو مٹھی میں سما جانے والا شہر ہے۔ مگراس میں اتنی گاڑیاں ہیں اور پھر جتنے پہیوں کی ہوں آپس میں گڈ مڈ ہو جاتی ہیں۔ یوں جیسے فیملی والے پارکو ں میں ڈوڈ جیم کارگیم ہو رہی ہو۔ جہاں بجلی سے کھلونا کاریں چلتی ہیں۔چلتی بھی کیا ہیں بلکہ ایک دو تین چار مرلہ کے میدان میں سیدھے تو جا نہیں سکتیں۔ وہیں گول گول گھوم کر ٹکٹ پورا ہو جاتا ہے۔ اس کھیل میں ایک تو نہیں درجنوں کا ریں ہوتی ہیں۔ ٹکٹ تو بس اسی میں پورا ہو جاتا ہے کہ دو گام چلیں اور سامنے والی کار کے کناروں پر لگے ربڑ کے سہارے آپس میں ٹکرا جائیں۔ ایک ہی جگہ ڈھیر ہو جائیں۔ یہی حال اس شہر کا ہے۔ جہاں ٹریفک کا یہ عالم ہے۔شہر کے دروازوں کے باہر اور بہت دور چلے جائیں۔ ورسک روڈ کے آخر تک دلہ زاک روڈ کے شروع تک۔ رامداس کے باہر کوہاٹ روڈ پر یا جانبِ صدر کیوں نہ ہو ہر جا یہی ایک جہاں اورہے۔کبھی ٹریفک بلاک نہ ہو۔ اگر لائن والے اپنی لائن میں رہیں اور لین والے اپنی لین کو فالو کریں۔بڑی گاڑیوں والے اپنی لین کو چھوڑ کر دوسری ہلکی پھلکی گاڑیوں کی لین میں گھسے ہوتے ہیں۔ پھر رکشہ اور چنگ چی اور موٹر سائیکل والے بھی اپنی لین کو چھوڑ کر کاروں والی لین میں سے راستہ نکالنے کی کوشش میں وہاں بھی رش بنا دیتے ہیں۔ یوں وہاں کی لین میں گاڑیاں ان رکشاؤں کی وجہ سے آپس میں بارہ سنگھے کی سینگوں اور جنگل کی جھاڑیوں کی طرح الجھ جاتی ہیں۔پھر سڑک تنگ ہو تو وہاں دو طرفہ ٹریفک میں جانے والے سامنے سے آنے والی گاڑیوں کی حد میں گھس جاتے ہیں۔ یہ سارا معاملہ بے صبری کی وجہ سے ہوتا ہے۔ہر آدمی اپناراستہ ناپنا چاہتا ہے۔ حتیٰ کہ پیدل چلنے والے بھی رش کے اس ہنگام پروا نہیں کرتے۔ وہ گاڑیوں سے زیادہ جلدی نکل جانا چاہتے ہیں۔ بیشتر تو چوٹ کھالیتے ہیں اور انھیں دھکا لگ جاتا ہے۔پھر سرعام دھینگا مشتی اور بحث و تکرار کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔کار والا اپنی مہنگی کار کی پروا نہ کرتے ہوئے موٹر بائیک والے کے ساتھ الجھا ہوتا ہے۔ اس کو احساس نہیں ہوتا کہ آگے ہی رش ہے اور میں نے جھگڑے کی وجہ سے اور بھیڑ بنا دی ہے۔ پھراس کو یہ بھی ٹینشن نہیں ہوتی کہ میری کار کو اگر کسی نے ٹھوکر مار دی تو وہ اس بائیک والے کو چھوڑ کر دوسرے کے ساتھ الجھ جائے گا۔اگر یہ لوگ ایک لائن میں رہیں تو ٹریفک کبھی نہ رکے۔ آہستہ سہی مگر چلتی رہے۔سامنے سے آنے والے کی لائن میں گھسنے سے پرہیز کیا جائے۔ٹریفک میں لائن الگ چیز ہے اور لین جداشئے ہے۔بڑی سڑکوں اور شاہراہوں پر بھاری ٹریفک کیلئے الگ سڑک ہوتی ہے۔ یا پھر اسی سڑک پر الگ پورشن ہوتاہے۔وہ ان گاڑیوں کی لین ہوتی ہے۔جبکہ اسی سڑک بھاری گاڑیاں ایک دوسرے کے پیچھے رہیں تو مقصد یہ کہ یہ اپنی لائن میں جا رہی ہیں۔ اگر یہ اصول نہ اپنایا جائے تو مصنوعی رش کی کیفیت ہوجاتی ہے۔ہمارے ہاں سارا ٹریفک نظام نا سمجھی اور ٹریفک اصولوں کی پاسداری نہ کرنے کے عادی ہونے کے کارن ہے۔ گول چوک ہو تو یا کوئی اور چو ک۔ وہاں تو ان گاڑیوں والوں کی بے صبری اور جلدی دیکھنے کے قابل ہو تی ہے۔ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں ایک دوسرے کے راستے پر بزور واردہو جاتے ہیں۔ شاید ان کو اپنی گاڑی پیاری نہ ہو۔ مگر موٹر سائیکل والوں کو تو اپنی جان کی پروا ہوتی ہے کہ کہیں کوئی گاڑی ٹھوک نہ دے۔پشتہ خرہ چوک رنگ روڈ حادثے کی ویڈیو دیکھی تو کانوں کو ہاتھ لگایا۔ موٹر سائیکل والوں کوتو ہم مفت میں الزامات دیتے ہیں۔مگر وہاں تو ایک جہاز جیسی آتی ہوئی کار نے تو الٹ کر 6موٹر سائیکل سواروں کو بری طرح کچل ڈالا۔ جن کے ساتھ ایک اور سواری بھی ہر بائیک پر بیٹھی تھی۔ بجلی کی سی تیز کار اپنی سڑک سے اچھل کر ساتھ والی سڑک پر مخالف سمت سے آتے ہو ئے موٹر سائیکل سواروں کو ہڑپ کر گئی۔ سب کچھ ٹوٹ پھوٹ گیا۔ کچھ بائیک سوار جاں بحق بھی ہوگئے۔ مگر افسو س کار والے کی تیز رفتاری پر ہے۔ جانے اس کو کس بات کی جلدی تھی۔