تحریک انصاف حکومت کو اپنے اقتدار کے آغاز ہی میں اقتصادی بدحالی کی صورت میں ملنے والی قومی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ عمران خان سمیت تحریک کی مرکزی و صوبائی قیادت کے ذہن میں ملک اور عوام کو اقتصادی طور پر مضبوط بنانے کیلئے جو لائحہ عمل موجود تھا‘ اسے بھی فوری طور پر عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔ پی ٹی آئی حکومت کو اپنے منشور کے برعکس بیل آؤٹ پیکیج کیلئے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پاس بھی جانا پڑا اور چین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے پاکستان کے دوست ممالک نے بھی پاکستان کی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے پی ٹی آئی حکومت کی خاطرخواہ معاونت کی۔ اس کے باوجود فوری طور پر معیشت سنبھل سکی نہ عوام کو گوناں گوں روزمرہ کے مسائل میں کسی قسم کا ریلیف مل سکا۔ بلاشک و شبہ کورونا وبا سے عہدہ برأ ہونا بھی حکومت کیلئے بڑا چیلنج تھا جو ترقی یافتہ ممالک کی معیشتوں کو جھنجوڑتے جھنجوڑتے پاکستان جیسی کمزور معیشت کو بھی ہلا چکا ہے چنانچہ حکومت کیلئے عوام کو روزگار فراہم کرنے کا وعدہ ایفا کرنا بھی مشکل ہو گیا اور عوام کے غربت‘ مہنگائی اور روٹی روزگار کے مسائل بھی گھمبیر ہو گئے۔ اس سے عوام میں اضطراب پیدا ہوا تو حکومت مخالف جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوکر حکومت کے خلاف چائے کے کپ میں طوفان اٹھانے کا نادر موقع مل گیا۔ اگرچہ اس وقت حکمران مخالف اتحاد پی ڈی ایم تتربتر ہے تاہم اقتصادی کساد بازاری کے نتیجہ میں عوام کے روزبروز بڑھتے روٹی روزگار کے مسائل اپوزیشن کو دوبارہ متحد ہونے کا موقع فراہم کر سکتے ہیں جس کیلئے شہبازشریف سرگرم دکھائی دے رہے ہیں اُور اُن کی کوشش ہے کہ حکومت کو دباؤ میں رکھا جائے۔ اس صورتحال میں حکومت کو چاہئے کہ وہ عوام کے بڑھتے ہوئے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل پر قابو پانے کی کوشش کرے تاہم اس معاملہ میں حکومت کی جانب سے کوئی امید افزأ منصوبہ بندی نظر نہیں آرہی۔ اب وفاقی بجٹ کی تیاری کے مراحل میں قومی معیشت کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے جیسی اچھی خبریں یکایک آنا شروع ہو گئیں ہیں اور وزیر خزانہ شوکت ترین نے یہ مژدہ جانفرا بھی سنایا کہ حکومت نئے ٹیکس لگانے کی آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم نہیں کر رہی۔ اس کے ساتھ ہی شرح نمو چار فیصد تک پہنچنے کی اچھی خبریں بھی ذرائع ابلاغ کی زینت بن رہی ہیں جس کی تصدیق گورنر سٹیٹ بینک بھی کر چکے ہیں لیکن حزب اختلاف کے قائدین نے اسے دیوانے کی بڑ قرار دیا اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے یہ بیان دے کر عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کے بیج بوئے ہیں کہ حکومت ریلیف دینے کی بجائے عوام سے ’روٹی کپڑا اور مکان‘ چھین رہے ہیں۔ اس کے برعکس سٹیٹ بینک نے اگلی سہ ماہی کیلئے اپنی مالیاتی پالیسی جاری کی جو پاکستان کے اقتصادی استحکام اور روشن مستقبل کی عکاسی کر رہی ہے جس کے مطابق پاکستان کی ترقی کا گراف چار عشاریہ آٹھ فیصد رہے گا اور شرح سود سات فیصد برقرار رہے گی۔ سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق معیشت بحال ہوگی اور درمیانی مدت میں افراط زر پانچ سے سات فیصد کم ہو گا جبکہ رواں مالی سال برآمدات میں اضافہ ہوا ہے اور حکومت نے اُنیس ارب تریسٹھ کروڑ ڈالر کا بیرونی قرضہ ادا کیا ہے۔ وزیرخزانہ کے بقول ایف بی آر کی ٹیکس وصولی بھی چودہ فیصد بڑھی ہے اور غیرسودی اخراجات میں کمی آئی ہے۔ وزیر منصوبہ بندی اسدعمر کے بقول پاکستان کی شرح نمو (جی ڈی پی گروتھ) کا ہدف چار عشاریہ آٹھ فیصد ہے۔ اسی طرح وزیر خزانہ شوکت ترین نے یہ خوشخبری بھی سنائی ہے کہ آئندہ ماہ جولائی سے مہنگائی میں کمی آنا شروع ہو جائیگی شرح نمو (گروتھ ریٹ) فی الواقع چار فیصد تک جا پہنچا ہے جس کی سٹیٹ بنک نے بھی تصدیق کی ہے تو کورونا وبا کے جاری بحران میں اقتصادی ترقی کے حوالے سے یہ حکومت کا بہت بڑا کارنامہ قرار پائے گا یقینا اس مبینہ ترقی کا عکس آنے والے وفاقی اور صوبائی میزانیوں (بجٹ) میں بھی نظر آئے گا۔ فی الوقت تو بدترین مہنگائی اور خوفناک بے روزگاری کی وجہ سے عام آدمی پریشان ہے۔