اب تو ماسک میں سے بھی کیڑے نکل آئے ہیں۔بلکہ نکالے جا رہے ہیں۔ نہیں تو زور زبردستی نکالنے میں کیا تکلیف پیش آسکتی ہے۔کیونکہ ہماری پبلک ہر اچھی بات میں سے کیڑے نکالنے کی عادی ہے۔ کہتے ہیں ماسک مت کہو غلافِ لب و رخسار کہو۔یہ لو اتنا مشکل نام۔اتنا مشکل اور طویل ترجمہ کون پکارے گا۔سیدھا سادا لفظ ہے۔بچہ بچہ جانتا ہے کہ ماسک کا کیا مطلب ہے۔بچوں کو تک کو معلوم ہے کہ ماسک کسے کہتے ہیں۔بچوں کے کھلونا ماسک بازار میں ملتے ہیں۔کہیں شیر کا ماسک ہے اور کہیں کسی ڈریکولاکا ماسک ہے۔ یہ خرید کر بچے ایک دوسرے کو ڈراتے ہیں۔ حالانکہ جس کو ڈراتے ہیں اس کو پتا ہوتا ہے کہ میرے سامنے کوئی شیر نہیں۔بلکہ بچے تو نانااور دادا جان تک کو یہ ماسک پہن کر ڈراتے ہیں۔بچے دکاندار کو یہ نہیں کہتے کہ غلافِ لب و رخسار دو۔کہتے ہیں شیر والا ماسک دو۔ پھر دادا ابو ہوں یا خودوالد ہوں بچوں کا دل رکھنے کیلئے ان سے ڈر جاتے ہیں۔کہیں سوشل میڈیا پر کورونا ماسک کو چیر پھاڑ کر قینچی سے کاٹ کر گلاس پانی میں ڈال کر جانے کیا کیا کرتے ہیں۔ بتلاتے ہیں کہ اس میں کیڑے ہیں۔پتا نہیں ان کو اس کام سے کیا مزا ملتا ہے۔یعنی ماسک پہننے سے نفرت دلاتے ہیں۔ حالانکہ اچھے اچھوں نے ماسک پہن رکھے ہیں۔ بڑی سرکاری یا حکومتی شخصیات ہوں انھوں نے بھی اپنے چہرے پر ماسک سجارکھا ہوتا ہے۔پھر یہ سازش تو نہیں۔سرجیکل ماسک کیا چیز ہے۔جس کو میڈیکل عملہ کورونا سے پہلے ہسپتال میں الرجی کے ڈر سے یا جراثیم کے جسم کے اندر گھس آنے سے روکنے کو پہنتے ہیں۔ آپ ذرا گوگل میں سپین فلو سرچ کریں۔ سو سال پہلے اسی طرح کی بیماری آئی۔ کروڑوں مر گئے۔ اس زمانے کی بلیک اینڈ وائٹ تصویریں دیکھیں۔ ہسپتال میں مریض اسی طرح قرنطینہ میں پڑے ہیں۔ ان کے علاج کرنے والوں کے چہروں پر سفید ماسک چڑھے ہیں۔یہی ماسک جو آج مختلف رنگوں میں بازار میں دستیاب ہیں۔ خود مریض اور عام لوگ بھی ان تصویروں میں بتلائے گئے ہیں جنھوں نے چہرے پرماسک لگا رکھے ہیں۔بعض حضرات فرماتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ ماسک سے بھلی چنگی سانس میں تنگی آنے لگتی ہے اوردم گھٹنے لگتا ہے۔یہ بات تو درست ہے۔مگر یہ بہت اچھا ہے۔اس حالت سے کہ آدمی ہسپتال میں داخل ہو کر وینٹی لیٹر پر سانس لینا شروع کر دے۔کیونکہ اگر صحت مند حالت میں چہرے پر ماسک لگا ہے تو آدمی کسی وقت اس کو اوپر نیچے کر کے اپنی سانس رواں دواں کر سکتا ہے۔اب تو کورونا کا خوف بھی تو نہیں رہا۔ روز دنیا بھر میں ہزاروں اور ہمارے ہاں ارضِ وطن میں ستر اسی مریض اس وائرس کے ہاتھوں سے جان سے جاتے ہیں۔مگر اس کے باوجود بھائی لوگ ماسک تو کیا نہیں پہنیں ہاتھ ملاتے ہیں گلے ملتے ہیں اور کسی فاصلے کو برقرار رکھنے کے قائل نہیں۔بلکہ اس ناخوشگوار فضا نے تو ہمارے سمیت بھلے چنگوں کو ذہنی مریض بھی بنا دیا ہے۔دو چار بندوں سے ہاتھ ملائیں گے اور تھوڑی دیر کے بعد موقع لگے تو اٹھ کر ہاتھ دھو کر آئیں گے۔افسر ہے تو دفتر میں کسی سے ہاتھ نہ ملائے۔ مگر فائلوں کو ہاتھ لگانے میز کو چھونے اور صوفے پر بیٹھ جانے کو بیماری کے حملہ آور ہونے کے برابر سمجھتا ہے۔ اٹھ کر باتھ روم جائے گا اور وہاں صابن سے ہاتھ دھوئے گا۔ بلکہ بعض تو میز پرپڑ ے ہوئے سینی ٹائزر کو بھی مشکوک سمجھ کر صابن سے ہاتھ دھونا زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔ ایک تقریب میں بہ امرِ مجبوری جانا ہوا۔ وہاں سب سے ہاتھ ملانا ہوا۔ ان میں خاندان کے سفید ریش بزرگ بھی تھے۔کیسے کہہ دیں کہ میں ہاتھ نہیں ملاتا۔سوچا چلو اٹھ کر ہاتھ دھو لیتا ہوں۔بس آدمی آدمی سے ڈرتا ہے۔ہاتھ دھو دھوکر تو ہماری جلد جو پہلے ہی کچی اور نازک سی تھی اور پلپلی ہو گئی ہے۔ ایسے کہ ذرا سا کھینچو تو سانپ کی کینچلی کی طرح پہلے چمڑے سے الگ ہو جائے۔اب تو یہ عالمی بیماری جانے والی بھی نہیں۔ذرا مریضوں میں کمی آئی اور لاک ڈاؤن کی کیفیت ختم ہوتو میل جول سے پھر یہ جراثیم توانا ہوکر خلقِ عام کو کمزور کر دیں گے۔ پھر سے ادارے بند ہو جائیں گے۔دنیا بھر میں اب اس بیماری میں کمی آرہی ہے۔لاک ڈاؤن آہستہ آہستہ ختم ہو رہے ہیں۔مگر اب اس بیماری کو ہسپتال والوں نے بخار اور کھانسی ملیریا ٹائی فائیڈ‘زکام جیسی عام سی بیماریوں کی فہرست میں ڈال دیا ہے۔شروع شروع میں اس وائرس کا وہ خوف تھا کہ کسی جنازے میں یا شادی میں سب شریک ہونے والوں پر ایک چپ کی پراسرار چادر تنی ہوئی تھی۔ ایک جنازہ میں سال پہلے گئے تو وہاں کان جوڑ کرسب ایک دوسرے کو چپکے چپکے کہہ رہے تھے کہ خیال کرو نمازِ جنازہ پڑھو نہ پڑھو حاضری لگاؤ اور پاؤں نکالو۔ کیونکہ اس علاقے میں کورونا کے ایک مریض کاپتا چلا ہے۔اس وقت گاؤں کے جنازے کے لمبے جلوس میں وہ خاموشی تھی کہ آج اس کا خیال آتا ہے تودل پر ہول آنے لگتے ہیں۔