ناکافی‘ غیرمعیاری علاج  

 عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) کی جانب سے اِس بات پر حیرت کا اظہار سامنے آیا ہے کہ اگر خیبرپختونخوا یعنی پورے صوبے کے سرکاری ہسپتالوں میں صرف ایک ’ماہر امراض قلب‘ ہے تو ایک سال کے دوران 4 ہزار 615 دل کے آپریشنز کیسے کئے گئے؟ ذہن نشین رہے کہ سپریم کورٹ اِن دنوں ایک ایسے مقدمے کی سماعت کر رہی ہے جس کا تعلق امراض قلب کے علاج بالخصوص دل کی بند شریانیں کھولنے کیلئے استعمال ہونیوالے آلات (stents) کے غیرمعیاری اور مہنگے ہونے سے متعلق سماعت کر رہی ہے اور یہ سماعت خود چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کے ہمراہ تین رکنی بینچ کر رہا ہے۔ چیف جسٹس نے صوبوں کی الگ الگ صورتحال جاننے کے دوران ایک موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جب کسی صوبے کے سرکاری ہسپتالوں میں صرف ایک ماہر امراض قلب ڈاکٹر ہو اور وہاں ہزاروں کی تعداد میں آپریشنز بھی ہو رہے ہیں تو ایسی صورت میں شعبہئ صحت کے نگران کو مستعفی ہو جانا چاہئے۔ اگرچہ ایسی کوئی ایک بھی مثال موجود نہیں جس میں سیاسی فیصلہ سازوں نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے استعفیٰ دیا ہو یا اپنی غلطیوں پر معافی مانگی ہو لیکن اِس کے باوجود عدالت عظمیٰ کی جانب سے علاج کی ناکافی اور غیرمعیاری سہولیات پر روشنی ڈالتے ہوئے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ جس سے بہتری کی اُمید رکھنی چاہئے۔ خیبرپختونخوا میں صحت کا نظام اور علاج کی سہولیات نظرثانی چاہتی ہیں لیکن یہ معاملہ صرف خیبرپختونخوا کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ چاروں صوبوں کی صورتحال ایک جیسی ہے کہ امراض قلب کو خاطرخواہ سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا اور یہاں صرف صوبائی اور وفاقی وزارت صحت ہی نہیں بلکہ اِن کے ماتحت اداروں کی کارکردگی بھی ایک جیسی ہے جنہوں نے عوام کو نجی علاج گاہوں اور طبی آلات و ادویات فروخت کرنے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔ عدالت عظمیٰ کو مطلع کیا گیا کہ خیبر پختونخوا میں ایک اور پنجاب میں امراض قلب کے مستند معالجین کی تعداد چالیس ہے جبکہ بلوچستان اور سندھ نے رپورٹ جمع نہیں کروائی لیکن وہاں کی صورتحال بھی زیادہ مثالی نہیں ہو گی نومبر 2020ء میں یہ خبر آئی تھی کہ پاکستان کے ایک تعلیمی ادارے نے دل کی بند شریانیں کھلی رکھنے کیلئے خصوصی آلہ (stent) تیار کیا ہے جس کا راولپنڈی اور کراچی کی علاج گاہوں میں تجرباتی استعمال کرنے کے کامیاب نتائج حاصل ہوئے ہیں‘ اِن آلات کی فی الوقت سالانہ تیاری پندرہ ہزار یونٹس ہے جبکہ سال 2022ء تک اِسے تیس ہزار کر دیا جائے گا۔ اِس منظرنامے کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ بھی جان لیں کہ جولائی 2018ء میں ’نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکولر ڈیزیزز (NICVD)‘ میں پہلا ایسا آپریشن کیا گیا جس میں ایک 62 سالہ خاتون کو مصنوعی دل لگایا گیا جبکہ اُن کا اپنا دل صرف پندرہ فیصد کام کر رہا تھا۔ ملک کی تاریخ میں ہونے والی اِس اہم طبی کامیابی کے بعد پاکستان کا نام دنیا کے اُن چند ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا تھا جہاں دل کے عمومی سے پیچیدہ امراض کا علاج ممکن ہے۔ ذہانت و قابلیت اور تجربے کی کمی نہیں اگر پاکستان کے تحقیق کار آلات جراحت سے بند شریانیں کھولنے والے آلات تیار کر سکتے ہیں اور وہ مصنوعی دل کی پیوندکاری بھی کر سکتے ہیں تو باقی کیا رہ جاتا ہے؟ بنیادی ضرورت فیصلہ سازوں کی توجہ (ترجیحات) کی ہے جنہیں امراض قلب کے علاج میں نجی اداروں کی خدمات اور طبی سیاحت جیسے امکانات سے فائدہ اُٹھانے والے سرمایہ کار اداروں کے منافع کو دیکھنا چاہئے۔ اُمید ہے کہ عدالت ِعظمیٰ کی جانب سے نوٹس لئے جانے کے بعد صورتحال میں بہتری آئے گی۔ مالی اور افرادی وسائل کی موجودگی میں اگر نیت اور ترجیح بھی شامل ہو جائے تو علاج کی غیرمعیاری اور ناکافی سہولیات میں اضافہ‘ جو کہ بظاہر ناممکن دکھائی دے رہا ہے‘ ممکن ہو سکتا ہے۔