سات ستاروں کا جھمکا 

 جہاں سے جی ٹی روڈ کی منی بسیں سٹارٹ لیتی ہیں۔ وہاں گلی میں چوڑا چکلا چوک ہے۔رہائشی علاقہ ہے۔ وہاں سے گزر ہوا تو دیکھا کہ سات دوست آپس میں ایک گھر کے باہر تھلی پرقریب قریب بیٹھے تھے۔ مگر یہ دیکھ کر کوئی خوشی نہیں ہوئی۔آنکھوں میں دکھن کااحساس ہوا۔ دل پر کسی نے چٹکی سی کاٹی۔سوچ میں پڑگیا کہ ہم کس بند گلی میں آ گئے ہیں۔ جہاں نہ تو آگے راستہ ہے اور نہ پیچھے جانے کی گنجائش ہم نے خود باقی چھوڑی ہے۔ یہ سارے یار دوست پاس پاس بیٹھے مگر ایک دوسرے سے اتنے دور تھے جتنا سات سمندروں کا فاصلہ جتنا کہ سات آسمان آپس ایک دوسرے سے دور ہیں۔جیسا دور سے نظر آنے والے ستارے ایک ساتھ دِکھتے ہیں۔مگر اک دوجے سے اتنے دور ہیں کہ ایک سے نکل کر دوسرے پر قدم رکھو تو لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں انسانی زندگی دوبارہ دوبارہ ملے تب بھی ناکافی ہو۔وہ اتنے دور تھے جیسے سات براعظم ہوں جو ظاہر میں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں مگر ایک دوسرے سے فاصلہ پر ہیں۔یہ سات سُر نہ تھے کہ باہم گنگا جمنا کے پانی کی طرح ہوں۔پھر اٹک کے مقام پر سندھ کے دریا اور دریائے کابل کی طرح بھی تو نہ تھے کہ الگ الگ ہو کر بھی ملے ہوں۔یہ سات سُروں کا بہتاہوا دریا تو نہ تھا۔ سات رنگ بھی تو نہ تھے کہ آپس میں مکس ہو کر نیا رنگ اختیار کر جاتے ہوں۔”اللہ رے بیخودی کہ تیرے پاس بیٹھ کر۔تیرا ہی انتظار کیا ہے کبھی کبھی“۔حیران ہو ں کہ یہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ کیلئے بیٹھے ہوئے تھے مگر پاس ہو کربھی وہ ایک دوسرے سے چپکے سے اٹھ کر بہت دور جا چکے تھے۔ جسم ان کے ایک جگہ تھے مگر روحیں دل اور دماغ کہیں اور کی دنیاؤں کی سیر میں مصروف تھے۔ میں سوچ میں تھا کہ منی بسیں تو یہاں سے شروع ہو کر سڑک پر آتی ہیں اور اپنا روٹ اختیار کرکے دوبارہ اگلے پھیرے کیلئے یہاں واپس آن موجود ہوتی ہیں۔ مگر ان ساتوں کے دل و دماغ میں بہت فاصلہ پیدا ہو چکا ہے۔پھر سوچا تو تسلی ہوئی کہ ساری دنیا اسی طرف جا رہی ہے۔جس طرف یہ رواں دواں ہیں۔یہ منی بسیں نہیں جوواپس آجاتی ہیں۔یہ توترقی کاسیدھی لکیرکا سفر ہے۔ کیونکہ رنگین اور ٹچ موبائل چیز ہی ایسی ہے۔ اس پانی کے قطرے میں سات سمندروں کی سیر ہے۔ ہم پاس پاس بیٹھ کر کبھی کبھار ایک دوسرے کتنادور چلے جاتے ہیں۔ دو بندے ہوں یا سات ستاروں کا جھمکا۔کائنات کا اصول ہے کہ چیزیں پہلے تو سمٹتی ہیں اور پھر پھیل جاتی ہیں۔پھرسمٹتی ہیں پھر پھیلتی ہیں۔ پہلے کمپیوٹر کی شکل کیا تھی۔کھانے کی میز کا سائز تھا۔مگر سمٹ کر لیپ ٹاپ بن گیا۔ اب تو لیپ ٹاپ پرانی کہانی ہے گھسی پٹی۔اب تو موبائل ہیں اور قسم قسم کے۔نرخ کے لحاظ سے جدا جدا۔جتنا گڑ ڈالو اتنا میٹھا ہوتا ہے۔لاکھوں روپوں کے ایک ہتھیلی میں سماجانے والے موبائل نے کمپیوٹر کوبہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔اتنا کہ جتنا مریخ ہمارے پاس ہو کر ہم سے اتنا دور ہے کہ اب تک اس پر انسانی جسم نہیں پہنچ سکا۔ ”اب اس کے خال سے چلتے ہیں گیسوؤں کی طرف۔ سمٹ کے دیکھ لیا ہے بکھر کے دیکھتے ہیں“۔وہ دوست موبائل میں گم ہو چکے تھے۔ یہ نظارہ یہاں کا تو نہیں۔ کوئی محفل ہو یا تنہائی بس موبائل ہی کی پراسرار جھنکا رہے جس پر آدمی سر دھنتے ہیں۔مگر اس کے باوجود کہ موبائل کی دیگر ویب سائٹ اور اپلی کیشن ہیں جو ناقابلِ اعتبار ہیں مگر اس پر ہمارے یار دوست اس طرح اعتبار کرتے ہیں کہ جتنا اپنی ذات پر بھی نہ کریں‘وہ سات دوست ہو ں یا سات بہن بھائی یا سات ٹیچر ہوں۔ سٹاف روم میں بیٹھے ہوں سب ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں۔ موبائل کے استعمال کرنے والوں کو اپنا ہوش نہیں رہتا۔ پھر وہ کسی اور جانب کیوں دیکھیں گے کیوں توجہ دیں گے۔ بات آپ سے کر تو رہے ہوں گے اور سن بھی رہے ہوں گے مگر ساتھ ساتھ موبائل کی کلر سکرین پر ان کی نظریں جمی ہوں گی۔ چلو جو علم و آگہی کے لئے استعمال کرتے ہیں وہ تو کسی طور معافی کے حقدار ہیں مگر وہ جو اس کو اپنی بری عادتوں کیلئے استعمال کرتے ہیں ان کا کیاکریں گے۔ کیونکہ وہ نادان جو اول فول دیکھتے ہیں پھر اس کو اپنے ارد گرد تلاش کرتے ہیں۔اس پر اپنے قریب کے ماحول میں اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ بات بہت زیادہ خطرناک ہے۔جس کی وجہ سے ماحول گندگی کا شکار ہو رہاہے۔