امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے انٹلیجنس اداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ کورونا وائرس کی ابتدا کے اسباب کے حتمی تعین کیلئے کوششوں کو دوگنا کریں اور وائرس شروع کرنے میں چین کے ووہان شہر کی لیبارٹری کے کردار پر مزید تحقیق کریں۔انہوں نے انٹلیجنس حکام کو 90 دن کے اندر اندر یعنی مارچ تک رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جائے کہ ”آیا یہ وائرس کسی متاثرہ جانور سے انسان میں منتقل ہوا یا پھر وہ کسی تجربہ گاہ سے قدرتی یا حادثاتی طور پر نکل گیا۔“ صدر نے کہا کہ انٹلیجنس کمیونٹی کے کچھ افراد اس نظریے کی طرف ”جھکاؤ“ رکھتے ہیں کہ ہوسکتا ہے یہ وائرس لیبارٹری میں پیدا کیا گیا ہو۔امریکہ کی خواہش اور کوشش ہے کہ بین الاقوامی ماہرین کو ”وائرس کے منبع اور پھیلنے کے ابتدائی دنوں کا پوری طرح سے جائزہ لینے کی آزادی دی جانی چاہئے۔ منگل کو وائٹ ہاؤس میں بریفنگ دیتے ہوئے حکومت کے متعدی بیماریوں کے ماہر ماہر انتھونی ایس فاوچی نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ شاید اس وائرس کی ابتداء قدرتی واقعے سے ہوئی ہے۔ لیکن چونکہ ہم 100 فیصد نہیں جانتے کہ اصل کیا ہے۔ لیب لیک کے دعوے میں بالکل حقیقت ہو سکتی ہے اور میں مکمل تفتیش کرنے کے حق میں ہوں۔چین نے لیب لیک نظریے کو ملک کے خلاف بدنامی کی مہم قرار دیا ہے اور کہا کہ بہت ممکن ہے کہ یہ وائرس دوسرے ممالک سے درآمد کیے جانے والے کھانے کے سامان خصوصاً مشرق بعید کے علاقوں سے جمے ہوئے گوشت کی صورت میں چین میں داخل ہوا ہے۔ چین ذرائع ابلاغ نے امریکی حکومت اور مغربی میڈیا پر افواہیں پھیلانے کا الزام عائد کیا ہے۔ جمعرات کو بائیڈن انتظامیہ کے اقدام پر چین نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو سائنسی حقائق کا سراغ لگانے میں کوئی سنجیدہ دلچسپی نہیں ہے۔ چینی وزرات خارجہ کے ترجمان نے کہا امریکی فوج نے کورونا وائرس پیدا کیا ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ فوٹ ڈیٹرک سمیت دو سو مشکوک امریکی حیاتیاتی لیبارٹریوں میں بھی کئی راز چھپے ہوئے ہیں۔ امریکہ کو چاہئے کہ وہ چین کی طرح سائنسی انداز میں عالمی ادارہ صحت کے ساتھ سائنسی انداز میں تحقیقات کرنے میں مدد دے۔کورونا وائرس، جو دنیا بھر میں 3.4 ملین سے زیادہ ہلاکتوں کا سبب بنا ہے, کی ابتدا کے بارے میں ابھی تک حتمی جواب نہیں ملا ہے کہ اس بیماری کی شروعات کیسے ہوئی تھیں۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی تحقیقات کی ہیں اور کررہا ہے لیکن اب امریکی صدر کی ہدایت امریکی پالیسی میں تبدیلی ہے۔ واضح رہے صدر ٹرمپ اس نظریہ کے پرچارک تھے مگر بائیڈن نے اسے مسترد کردیا تھا اور اس بارے تحقیقات روک دی تھیں۔ اب صدر بائیڈن کی خواہش تھی کہ عالمی ادارہ صحت وائرس کی ابتداء بارے حقائق کی کھوج لگائے مگراب امریکہ خود حقائق تک پہنچنے کی کوشش کررہا ہے۔کسی صدر کی جانب سے اس طرح کا بیان جاری کرنا انتہائی غیر معمولی بات ہے جسے مبصرین انٹلیجنس کمیونٹی کے کام کی نہایت ہی ہلکی سرزنش اور چین کو دباؤ میں لانے کی کوشش سمجھتے ہیں۔وائرس بارے امریکہ کے سائنسدانوں میں مقبول نظریہ یہ تھا کہ یہ ووہان شہر میں قائم گوشت مارکیٹ کی وجہ سے جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا اور اسے مصنوعی طور پر کسی تجربہ گاہ میں نہیں بنایا گیا لیکن اب کچھ نئی معلومات آئی ہیں جس کے بعد اس نظریہ کو تقویت ملی ہے کہ یہ وائرس حادثاتی یا دانستہ طور پر باہر آیا تھا۔ریپلکن پارٹی کے اہلکار اور خصوصاً سابق امریکی صدر ٹرمپ ووہان لیب کی غلطی اور چین میں وائرس کی ابتداء بارے اشتعال انگیز بیانات دیا کرتے تھے۔ کئی نے تو اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ یہ وائرس بطور حیاتیاتی ہتھیار بنایا گیا تھا۔ لیکن ڈیموکریٹس اور بہت سارے سائنس دانوں نے انہیں مسترد کردیا تھا۔تاہم حالیہ ہفتوں میں تحقیق کار اس پر زور دے رہے ہیں کہ مکمل حقائق دستیاب ہونے تک لیب تھیوری کو زیر غور رکھنا چاہئے۔ڈیموکریٹ اور ریپبلکن ارکان کانگریس کہہ رہے ہیں کہ لیب تھیوری کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ سینیٹر ٹام کاٹن کے بقول ”لیب لیک کا معاملہ ویسے ہی ہے جیسے جنوری 2020 میں تھا۔ امریکہ اور دنیا کو ووہان لیب پر خصوصی توجہ کے ساتھ کورونا وائرس کی اصلیت کی مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کرنا چاہئے۔“اس سال کے شروع میں عالمی ادارہ صحت کے نامزد کردہ سائنسدانوں کی ٹیم نے تحقیقات کیلئے ووہان کا دورہ کیا لیکن چین میں 12 دن گزارنے اور ووہان لیب کا دورہ کرنے کے بعد اس ٹیم نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ لیب لیک نظریے کے ’سچ ہونے کا امکان انتہائی کم‘ ہے۔ معروف سائنسدانوں کے ایک گروہ نے عالمی ادارہ صحت پر تنقید کی کہ اس نے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سینکڑوں صفحات پر مبنی اپنی رپورٹ میں لیب لیک نظریہ کا ذکر محض چند صفحات میں کرکے اسے نظر انداز کیا۔ انہوں نے ڈبلیو ایچ او کو مکمل اور لامحدود تحقیقات کیلئے کہا۔ مارچ میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس نے کہا کہ لیب لیک نظریہ پر مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔یہ واضح نہیں ہے کہ چینی تعاون کے بغیر تحقیق کار تین ماہ کی مدت میں کیسے کسی نئے نتیجے پر پہنچ پائیں گی اور کیا لیب کے بیمار کارکنوں میں ہونے والے انفیکشن کے بارے میں کچھ ٹھوس معلومات حاصل ہو سکیں گی یا نہیں۔ابھی تک واضح طور پر یہ بات سامنے نہیں آئی کہ کوویڈ-19 کا سبب بننے والا وائرس انسانوں میں کیسے پھیل گیا۔ یہ بوجوہ آسان کام نہیں ہے۔ سائنس دانوں ابھی تک انفلوئنزا، جس نے 1918 میں لاکھوں افراد مارے تھے، کی بابت واضح طور پرنہیں جان پائے ہیں کہ وہ کیسے شروع ہوا۔