افغانستان سے غیرملکی (امریکہ و اتحادی) افواج کا انخلاء اور دہشت گردی کے واقعات میں بیک وقت اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ سے آمدہ اطلاعات کے مطابق افغانستان کے اکثریتی دیہی علاقے افغان طالبان کے کنٹرول میں ہیں جبکہ افغان حکومت چند کلومیٹرز پر مشتمل دارالحکومت کابل اور گنتی کی دیگر شہری آبادیوں میں اثرورسوخ رکھتی ہے۔ افغانستان میں امن و امان کی اِس صورتحال کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ خانہ جنگی کے باعث ہمسایہ ملکوں بالخصوص پاکستان کی جانب افغان مہاجرین کے نئے سیلاب کے اُمڈ آنے کے خدشات ہیں۔ کابل انتظامیہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھنے کے بجائے اسلام آباد اور کابل کے درمیان نئی تلخیاں جنم لے چکی ہیں اور خطے میں امریکہ کے نئے فوجی اڈوں کے امکانات پر طالبان بھی کسی ملک کا نام لئے بغیر دھمکی آمیز بیانات جاری کر رہے ہیں۔ یہ ایسا منظرنامہ ہے جو عدم استحکام کو مزید گہرا کرسکتا ہے اور اس سے پورا خطہ متاثر ہوسکتا ہے!پاکستان میں امریکی فوجی اڈوں کے قیام سے متعلق بحث جاری ہے۔ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف اس مسئلے پر بات کرچکی ہے جبکہ وزیرِ خارجہ بھرپور تردید کرچکے ہیں لیکن حزب اختلاف کو مزید وضاحت چاہئے۔ اس حوالے سے بند کمرہ میں اجلاس کی بھی تجویز ہے۔ اس سے قبل مشرف دور میں پاکستان نے امریکہ کو ایک ائربیس استعمال کرنے کی اجازت دی تھی اور اس کے تلخ نتائج بھی بھگت چکا ہے اب جبکہ افغان طالبان کی ناراضگی اور انتقامی کاروائیوں کا خطرہ موجود ہے اور کابل انتظامیہ کے ساتھ پہلے ہی بات چیت تقریباً بند گلی میں ہے اس طرح کا فیصلہ قومی سلامتی کیلئے خطرات بڑھا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں امریکہ کے ساتھ غیر معمولی فوجی تعاون کرنے سے پہلے علاقائی سیکیورٹی اور اتحادیوں کی رائے کو بھی نظر میں رکھنا ہوگا اور اِس سلسلے میں روس اور چین کے سٹرٹیجک اتحاد اور قربت کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ چار فریقی غیر رسمی اتحاد جس میں امریکہ‘ جاپان‘ آسٹریلیا اور بھارت شامل ہیں اسے بھی نہیں بھولنا چاہئے۔ مذکورہ دونوں اتحاد دراصل امریکی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔ امریکہ نے روس اور چین کو دبانے کی جو پالیسی ٹرمپ دور میں اپنائی تھی اسے بائیڈن بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکہ ٹرمپ دور میں اپنی اجارہ داری کو پہلے ہی نقصان پہنچا چکا ہے اور کئی خطوں میں امریکی اثر و رسوخ کمزور پڑا ہے۔ ان حالات میں روس اور چین مل کر نیا علاقائی نظام بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ افغانستان سے فوجی انخلأ کی صورت میں روس اور چین کو نئے علاقائی نظام کی تشکیل میں آسانی ہوئی ہے۔ روس اور چین کا بظاہر مؤقف یہی ہے کہ ان کے دوطرفہ تعاون کا ہدف کوئی تیسرا ملک نہیں اور امریکہ کو چیلنج کرنا ان کے مقاصد کا حصہ نہیں تاہم بڑھتا ہوا امریکی دباؤ بیجنگ اور ماسکو کی قربتوں میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ‘ جس کا ایک چھوٹا سا حصہ سی پیک ہے افغانستان کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ امریکی انخلاء کے بعد چین پاکستان اور ایران میں بڑی سرمایہ کاری کی حفاظت کیلئے افغانستان میں استحکام کی کوشش کرے گا اور ایک امکان یہ بھی ہے کہ خانہ جنگی کی صورت میں چین امن فورس تعینات کرے تاکہ افغانستان کے ساتھ ملحق سنکیانگ صوبے کو بھی ممکنہ بدامنی سے بچایا جاسکے۔ ایران کے ساتھ معاہدے کے تحت چین پہلے ہی وہاں پانچ ہزار فوجی تعینات کرنے کی اجازت لے چکا ہے۔ افغانستان سے امریکیوں کی روانگی کے بعد چین بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو تیز رفتاری سے بڑھا سکتا ہے۔ امریکہ جو اربوں ڈالر جنگ پر لگا کر خطے سے نکلنے پر مجبور ہوا ہے وہ بیجنگ کو راستہ دے رہا ہے اور ڈریگن کو راستہ ملنے کا مطلب ہے کہ اب خطے پر ایک اور طاقت سافٹ پاور کے ساتھ اجارہ داری قائم کرنے کو ہے۔ اگر چین افغانستان میں فعال ہوا تو یورپی طاقتوں کے علاوہ بھارت بھی افغانستان سے باہر ہوجائے گا۔ یہی پاکستان کی خواہش و کوشش بھی ہے کہ افغانستان میں پائیدار قیام امن کے ساتھ ایک ایسی حکومت آئے جو افغان سرزمین اور وسائل کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکے اور افغان مہاجرین کا ’نیا سیلاب‘ پاکستان کی طرف رخ کرنے کی بجائے پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی کی راہ ہموار ہو۔