حکومت نے معاشی بہتری سے متعلق جو دعوے کئے ہیں اُن سے متعلق تجزیہ کار اور حزب اختلاف کی رائے مختلف ہے جو اِس بات کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کورونا وبا کی تیسری لہر کے دوران جبکہ ملک معیشت بندشوں کا شکار ہے تو پھر کس طرح اتنی بڑی معاشی سرگرمی پیدا ہوسکتی ہے؟ پہلے اس بات کا تجزیہ کرنا ہوگا کہ کون سے اعشاریئے اور اعدادوشمار ہیں‘ جو اس وقت دستیاب نہیں‘ جب آئی ایم ایف کو بجٹ فریم ورک بھیجا جا رہا تھا۔ اپریل سے مئی کے درمیان کس چیز میں تبدیلی آئی ہے۔ کیا آئی ایم ایف اور نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کو الگ الگ ڈیٹا فراہم کیا گیا ہے؟ ماہرین کا خیال ہے کہ جب حتمی اعدادوشمار کو مرتب کیا جائے گا تو اصل معاشی ترقی سامنے آجائے گی کیونکہ بعض ڈیٹا کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے جیسا کہ مالی سال 2019ء میں معاشی شرح نمو کو 3.3 فیصد سے کم کرکے 1.9فیصد کردیا گیا تھا۔ روپے کی قدر میں اضافے اور جی ڈی پی بہتر ہونے سے فی کس آمدنی میں 13.4فیصد کی بہتری آئی ہے۔ جس سے فی کس آمدنی 1361ڈالر سے بڑھ کر 1543ڈالر ہوگئی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ بہتری صرف اور صرف اکاؤنٹ بکس یعنی کاغذ میں ہونے والی بہتری قرار دی جاسکتی ہے کیونکہ روپے کی قدر 168تک پہنچ جانے کی وجہ سے ملک میں دستیاب تمام کموڈیٹیز کی مالیت اسی تناسب سے ایڈجسٹ ہوچکی ہے۔ روپے کی قدر میں بہتری کی وجہ سے جی ڈی پی کا حجم 263 ارب ڈالر سے بڑھ کر 296 ارب ڈالر ہوگیا ہے اور حجم میں 33 ارب ڈالر کا اضافہ کسی بھی سال کا سب سے زیادہ اضافہ ہے۔ ملک کی خام قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا مطلب مقامی پیداوار ہوتا ہے اور اس میں بہتری ڈالر کی قدر کم ہونے سے نہیں ہوسکتی ہے۔ اگر جی ڈی پی میں اضافہ پاکستانی کرنسی میں دیکھا جائے تو یہ 14.81فیصد بنتا ہے جبکہ ڈالر میں 12.5فیصد بنتا ہے۔ کرنسی کے تقابل میں جی ڈی پی بڑھنے کے بجائے 2.3فیصد کم ہوئی ہے اس کے علاوہ فی کس آمدنی کے تعین کیلئے مالی سال 2019-20ء اور مالی سال 2020-21ء میں آبادی کو یکساں یعنی اُنیس کروڑ تیس لاکھ دیکھا گیا ہے تو کیا ایک سال میں آبادی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا؟ جی ڈی پی کے اعداد و شمار سے حکومت کے حق اور حکومت کے دعوؤں کے مخالف تصویر بنائی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ ہول سیل (تھوک) اور ریٹیل شعبہ (پرچون) نے 18.7فیصد کی شرح سے کارکردگی دکھائی ہے اگرچہ جی ڈی پی کی ترقی میں ریٹیل سیکٹر کا حجم 38فیصد ترقی دکھا رہا ہے مگر صنعتی شعبہ اس کے برخلاف 20فیصد ترقی دکھا رہا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف سال 2018ء میں جب اقتدار میں آئی تو اختتام کو پہنچنے والے مالی سال یعنی 2017-18ء کے دوران معاشی شرح نمو 5.8فیصد تھی جس کو بعدازاں کم کرکے 5.53فیصد کردیا گیا۔ مسلم لیگ (نواز) کی حکومت میں اوسط معاشی شرح نمو 4.7فیصد ریکارڈ کی گئی۔ پاکستان تحریک ِانصاف کی حکومت میں مالی سال 2018-19ء کی معاشی شرح نمو 1.8فیصد‘ 0.47فیصد اور 3.94 فیصد کو بھی درست مان لیا جائے تو اس کے مقابلے میں آبادی میں اضافے کی شرح 2.2فیصد یا اس سے زائد بنتی ہے جبکہ حقیقی معاشی ترقی 1.2فیصد رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی معیشت کا مزید ڈیٹا آنا باقی ہے۔ اس کے بعد ہی معاشی شرح نمو کی اصل حقیقت سامنے آسکے گی۔