مہنگا ئی کا پیما نہ ۔۔۔۔۔۔۔

وزیر اعظم عمران خا ن نے سر کاری حکا م پر زور دیا ہے کہ مہنگا ئی کو ختم کرنے پر تو جہ دی جا ئے کیونکہ حکومت کی پہلی تر جیح مہنگا ئی کا خا تمہ ہے عید الفطر کے 10رو ز گذر نے کے بعد مہنگا ئی کے کچھ اعداد شمار ہمارے سامنے آگئے ہیں یہ اعداد و شمار محکمہ شما ریات کے پا س نہیں قیمتوں کا جو حساس انڈکس تیار کیا جا تا ہے اس میں بھی ان اعداد شمار کی جھلک ہمیں نہیں ملتی یہ وہ اعداد و شما ر ہیں جن کو مہنگا ئی معلوم کرنے کا پیما نہ کہا جاتا ہے شہروں سے دیہات تک، میدا نی علا قوں سے پہا ڑی اضلا ع تک ہر جگہ عید الفطر پر کو رونا ایس او پیز کے با و جود زبردست خریداری ہوئی پھل اور سبزیوں کی دکا نیں دن رات کاروبار میں مصروف رہیں بازارکی یہ حا لت دیکھ کر سب نے اندازہ لگا لیا کہ مہنگا ئی نے لو گوں کا کچھ نہیں بگا ڑ ا لو گوں کی قوت خرید پہلے سے زیا دہ ہو گئی ہے اور مہنگا ئی کو نا پنے کا یہ درست پیما نہ ہے اگر بازار آباد ہے خریداری زوروں پر ہے، لوگ دھڑا دھڑ سودا لیکر گھروں کو لوٹ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مہنگا ئی بہت کم ہے یا با لکل نہیں ہے اس کے مقا بلے میں اگر بازار سنساں ہے قصا ئی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں پھل اور سبزیوں کے بیو پار گا ہکوں کی راہ دیکھ رہے ہیں انا ج کی دکا نوں پر سودا نہیں ہو رہا، بزاز اور جو توں والے اپنی قسمت کو رورہے ہیں تو سمجھو کہ مہنگا ئی نے لو گوں کی قوت خرید کو شکست دی ہے اخبارات میں ہر روز جو پرائس انڈکس آتا ہے اس میں آلو، پیاز اور ٹما ٹر کے نر خ دئیے جا تے ہیں دال، چاول، گھی اور دیگر اشیائے صرف کی قیمتیں دی جا تی ہیں یہ نہیں بتا یا جا تا کہ بازار میں خریداری ہو رہی ہے یا نہیں؟ خریداروں کا ہجوم ہے یا نہیں؟ سرد جنگ کے زما نے میں یورپ کے اندر مشرقی جر منی،پو لینڈ اور دیگر کمیو نسٹ مما لک میں بازار سنسان ہوتے تھے کوئی خریداری نہیں ہوتی تھی مغربی جر منی سے مشرقی جرمنی میں داخل ہونے والے بازار کو دیکھ کر اندازہ لگا تے تھے کہ ہم کمیو نسٹ ملک میں آچکے ہیں جہاں لو گوں میں قوت خرید نہیں ہے بازار میں کوئی خریدار نہیں کاروبار نہیں مہنگا ئی کونا پنے کا یہ فطری پیما نہ ہے لو گوں کی قوت خرید جواب دیدے تو اندازہ لگا یا جاتا ہے کہ مہنگا ئی نے کمر توڑ دی ہے اس لئے بازار سنساں رہ گئے ہیں اس کے مقا بلے میں جہاں سر ما یہ دارانہ نظام تھا وہاں کے بازار آباد تھے خریدار وں کا ہجوم تھا کاروبار زوروں پر تھا کیونکہ لو گوں کی قوت خرید بہت زیا دہ تھی اس پیما نے کو اگر سال 2021کے عید الفطر پر مہنگا ئی کا اندازہ لگا نے کیلئے سامنے رکھا جا ئے تو معلوم ہو گا کہ مہنگا ئی کی شرح جو بھی ہو، پرائس انڈکس کا جو بھی تخمینہ ہو لو گوں کی قوت خرید کے مقا بلے میں مہنگا ئی زیا دہ نہیں اس کا علا ج یہ ہے کہ عوام اپنی ضروریات کو محدود رکھیں، خوراک اور پوشاک سمیت ہر کام میں قنا عت گزاری اور کفا یت شعاری کو اپنا ئیں ہمارے ہاں گذشتہ ایک سال سے اس کا تجربہ ہو رہا ہے ٹما ٹر کا بائیکا ٹ، سیب کا بائیکاٹ، پیاز کا بائیکاٹ ہوا تو نر خ کم ہو گئے اس طرح کپڑوں اور جوتوں کا بائیکاٹ ہو گا تو نر خ کم ہو جائینگے ہر دعوت میں شرکت کے لئے نیا سوٹ لینا بند کرینگے تو بازار میں سوٹ مہنگا نہیں ہوگا، مہنگا ئی کو کم کرنے کے لئے عوام کو اپنا رہن سہن بدلنا ہو گا لائف سٹا ئل بدلنا ہو گا اگر فطرانے کا حقدار 4جوڑے کپڑے بنا ئے گا تو مہنگا ئی کبھی ختم نہیں ہوگی اورمہنگا ئی کا جن بے قابو ہی رہے گا مہنگا ئی ختم کرنا صرف حکومت کا کام نہیں اس کا م میں عوام کو بھی اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کا توڑ صرف حکومت کا کام نہیں بلکہ عوام کا رویہ اور ان کا طرز عمل بھی اس حوالے سے اہم ہے اگر کوئی چیز مہنگی ہورہی ہے اور اس کا سستا متبادل موجود ہے تو کیوں نہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے اور یا ممکن ہو تو اس شے کا استعمال ہی ترک کیا جائے یوں طلب کم ہونے اور رسد زیادہ ہونے کے نتیجے میں لازمی طور پر قیمت میں کمی آئے گی تاہم دیکھنے میں آیا ہے کہ کوئی چیز کتنی ہی مہنگی ہو جائے لوگ انہیں خریدنے میں اپنی شان سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے پر فخر کے لئے مہنگی سے مہنگی چیز خریدنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔