آج کل تو سڑک پر جو بھی حادثہ ہو یاپھر کسی کے ساتھ کوئی مسئلہ ہو۔جانی مالی یا ہر طرح کا۔کبھی ٹی وی پر نہیں بھی آتا۔ ہاں اس کی ایک آدھ خبر وہ بھی اگر ضروری ہوئی تو پٹی کی صورت میں سکرین پر چلتی دکھائی دے جاتی ہے۔ مگر اس چھوٹی سی خبر سے ہٹ کراس کی دنیا جہاں کی سوشل میڈیا کے دیگر چینل پر کھلم کھلا بیان ہو جاتی ہے۔سڑک پر حادثہ ہوا لاشیں بکھری ہیں زخمی تڑپ رہے ہیں۔راہ گزرنے والوں کی طرف سے اس کی ویڈیو بن رہی ہے۔جو لوگ ان زخمیوں کی مددکرنے کو مصروف ہیں وہ قابلِ داد ہیں۔خواہ ایکسیڈنٹ ہو یا کوئی اور فائرنگ وغیرہ کا کیس ہو قتل و غارت کی واردات ہو۔ہمارے ہاں اس وقت اس قسم کے حادثات کے سیر بین بہت موجود ہوتے ہیں۔ یہ ان کیلئے سیر کے مقامات بن جاتے ہیں۔بلکہ بعض اوقات سرکاری انتظامیہ کے کام میں دخل بھی دیتے ہیں۔ مووی بنائیں گے۔ پر وہیں سے وٹس ایپ کے گروپ میں بھیج دیں گے۔مقابلہ یہ ہوتا ہے کہ کون یہ نیوز یہ کلپ یا پھر یہ انفارمیشن سب سے پہلے دوسروں سے شیئرکرتا ہے۔یا پھر ایسا بھی ہے کہ اپنے ریکارڈ کے لئے وہ اس حادثے کی تصاویر اپنے موبائل میں محفوظ کر لیتے ہیں۔تاکہ گھر جا کر گاہے گاہے اس کو نکال کر دیکھیں۔ گھروالوں کو دکھائیں۔ مگر وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اس طرح تو کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔اس پر توبہ کرنی چاہئے۔ پھراس قسم کی ویڈیو کو فخر کے ساتھ دوسروں کو نہیں بتلانا چاہئے۔بلکہ توبہ استغفار کر کے دیکھنا چاہئے اور دوسروں کو اس سے عبرت دلانا چاہئے۔ اکثر تو اچھے لوگ ہیں۔ مگر بعض کا عبرت سے دور کا تعلق بھی نہیں رکھتے۔تفریح کیلئے ویڈیو بناتے ہیں۔ حادثہ ہوا اور بڑی سواریوں والی گاڑی کی گیس کی ٹینکی پھٹ گئی۔ آگ لگ گئی۔ مسافر اندر ہی اندر جل رہے ہیں۔ ان کی لاشیں جیسے کسی نے آگ پر بھوننے کورکھ دی ہوں۔ مگر راہگیربہتر یہ کہ ان کو بچائیں ان کی مدد کریں۔ وہاں تماش بین اپنا اپنا موبائل نکال کر اس جلتی ہوئی گاڑی کی ویڈیو بنانے لگ جاتے ہیں۔ یہ کتنا برا ہے۔مگر ہم کرتے ہیں۔ جرمنی میں حادثہ ہوا تو وہاں پولیس نے جائے حادثہ کے گرد سلوشن ٹیپ جیسا فیتہ چاردیواری کی صورت میں علامتی طور پر کھینچ دیا۔ جس پر جگہ جگہ”نو انٹری“ لکھا تھا۔ مطلب یہ کہ اس رسی نما فیتے کے اندر آنا منع ہے۔پھر فیتے کے پار سب کچھ نظر بھی تو آ رہاہے۔ اس لئے کسی نے پولیس کے کام میں رخنہ ڈالنے کی کوشش ہی نہیں کی۔مگر ہمارے ہاں ایسا کوئی واقعہ ہو جائے۔ وہاں پولیس ایک رسی باندھ دے تاکہ لوگ اندر نہ آئیں اور پولیس کاروائی بروقت اور شفاف طریقے سے ہو۔ مگر ہمارے بھائی بند مہربان کسی کی کہاں سنتے ہیں۔ یہ تو تعلیم و تربیت تک ہے کہ وہ اندر آ تے ہیں یا نہیں۔ مگر چونکہ تعلیم و تربیت نہیں۔ اس لئے یہ لوگ رسی کو ہاتھ سے اٹھا کر سر نیچا کر کے اس علامتی چار دیواری کے اندر چلے جاتے ہیں۔مگر باہر کے ملکوں میں چونکہ تعلیم و تربیت ہے۔اس لئے وہ لوگ نوانٹری کے فیتے کے پاس کھڑے ہو کر دیکھیں گے اور تصویر بنائیں گے اور ہوا تو واپس چلے جائیں گے۔ہمارے ہاں تو نیا ہی ڈوبی ہے الٹی گنگا بہتی ہے۔ جس کام کے بارے میں منع کرو وہی کام کریں گے اور کر کے چھوڑیں گے۔ اس وقت اگر ان راہگیروں کے پاؤں بھی پڑو تو یہ رسی اٹھا کر حادثے والی گاڑی کو ہاتھ لگانے اندر ضرور اندر جائیں گے۔ پھر موبائل نے تو لوگوں کو بے حس بنا دیا ہے۔ان پرکسی نصیحت کا اثر ہی نہیں ہوتا۔ کوشش یہ ہو کہ کوئی حادثہ نہ ہو مگر ازروئے تقدیر یا غلطی سے ہو جائے تو اس پر وہاں اگر کسی کی مدد ہو سکے تو کریں اور فوٹو بھی بنا نا چاہیں تو بنا لیں مگر ازراہِ خدا وہا ں رش نہ بنائیں۔ میں نے کئی بھائیوں کو دیکھا کہ حادثے کے مقام پر جو گھنٹہ پہلے ہوا تھا۔پھر وہاں اب ان کی دل چسپی کا کچھ نہیں رہا۔مگر وہاں پولیس نے پچکی ہوئی گاڑی کے آگے رسی کھینچ رکھی ہے۔لیکن یہ لوگ رسی کو اٹھاکر اندر جائیں گے اور گاڑی کو قریب سے دیکھیں گے جیسے تخت بھائی کے کھنڈرات کی سیر کو نکلے ہوں۔حالانکہ دور سے سب کچھ نظر آ رہاہوتا ہے۔معلوم ہوجاتا ہے حادثہ کیسے ہوا اور اس گاڑی کے ساتھ کیاہوا مگر یہ لوگ غیر ضروری تفصیل جاننے کی کوشش سے بازبھی تو نہیں آتے۔