افغان سپریم سٹیٹ کونسل کی تشکیل ۔۔۔۔۔۔

افغانستان میں پیش آنے والے واقعات اس حوالے سے اہم ہیں کہ امریکی افواج کے انخلاء کا عمل تیزی سے جاری ہے اور بین الافغان مذاکراتی عمل کا اگلا مرحلہ بھی چند روز میں متوقع ہے جس کے بعد افغانستان کے حوالے سے مستقبل کا نقشہ کھل کر سامنے آجائے گا کہ مذاکراتی عمل جاری رہتا ہے یا پھر ملک خانہ جنگ کی طرف جاتا ہے۔افغا ن سپریم سٹیٹ کونسل کی تشکیل کے خیال کو سیاسی رہنماؤں اور تجزیہ کاروں کے رد عمل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جو نہ صرف اس کی تشکیل کی مخالفت کررہے ہیں بلک ان کا کہنا ہے کہ امن کے معاملات سے نمٹنے کیلئے قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کی موجودگی میں کسی نئے ادارے کی کیا ضرورت ہے بلکہ یہ لوگ ایسی کسی کوشش کو وقت اور وسائل کا ضیاع بھی قرار دے رہے ہیں۔دلچسپ امر یہ ہے کہ افغان رہنماؤں میں اس زیر بحث کونسل کے ممبروں کی تعداد کے بارے میں بھی شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ حکومتی حلقوں کاکہناہے کہ کونسل میں کم از کم 21 ممبران ہوں گے جن میں چار خواتین بھی شامل ہوں گی تاہم گلبدین حکمت یار کی سربراہی میں حزب اسلامی اس کونسل کے ممبروں کی تعداد کم سے کم رکھنے کے مطالبے پر اڑی ہوئی ہے۔سپریم سٹیٹ کونسل کی تشکیل کیلئے کوششیں اس وقت سامنے آئیں ہیں جب نہ صرف ملک میں تشدد میں ہرگزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہاہے بلکہ دوحا میں افغان حکومت اور طالبان میں ہونے والے بین الافغان امن مذاکرات بھی تادم تحریر التواء کا شکارہیں۔سپریم سٹیٹ کونسل کے قیام اور اس کے اغراض ومقاصد ارو دائرہ کار کے بارے میں گومگوں کی کیفیت خود حکومتی ایوانوں کی پیداکردہ ہے جس کا واضح ثبوت اس ضمن میں مختلف حکومتی عہدیداران کی جانب سے اس مجوزہ کونسل کے بارے میں متضاد آراء کاسامنے آنا ہے۔اس سلسلے میں ایک سینئر صدارتی مشیر اور قومی مفاہمتی کونسل کے نائب سربراہ اکرم خپلواک نے گزشتہ دنوں تصدیق کرتے ہوئے کہا تھاکہ سپریم سٹیٹ کونسل جسے حکومت اور سیاسی رہنما گذشتہ چند ہفتوں سے حتمی شکل دینے کیلئے کام کر رہے ہیں کو فیصلے کرنے اور امن، جنگ اور ملک کے خارجہ تعلقات سے متعلق مشورے دینے کا اختیار حاصل ہوگا۔ دوسری جانب حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار اور جمعیت اسلامی کے مرکزی دھڑے کے سربراہ صلاح الدین ربانی نے کہا ہے کہ سپریم سٹیٹ کونسل کی تشکیل اور اس کے ممبران پرواضح اختلافات موجود ہیں۔واضح رہے کہ اس مجوزہ کونسل میں ملک کی ان اہم جماعتوں کے سربراہان ور قائدین شامل ہیں جن کا اثر جنگ اور امن پر پڑتا ہے۔اس حوالے سے حزب اسلامی کے سربراہ حکمتیار کا موقف ہے کہ ایسی جماعتوں اور ان کے سربراہان کی تعداد آٹھ سے زیادہ نہیں ہے لہٰذا سپریم سٹیٹ کونسل کے ممبران کی تعداد آٹھ سے ذیادہ نہیں ہونی چاہئے،کچھ ان سے ملتا جلتا موقف سابق وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کا بھی ہے جو بعض چھوٹے اور نسبتاًغیراہم دھڑوں کی نمائندگی کی مخالفت کررہے ہیں۔یہاں یہ نقطہ اہم ہے کہ حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار نے کہا ہے کہ اگر اس کو نسل کوفیصلے کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہوگا تو وہ اس کا حصہ نہیں بنیں گے ان کے اس غیرلچکدار رویئے کے پیش نظر ہی ان سے صدر اشرف غنی نے گزشتہ سوموار کو دوبارہ ملاقات کی ہے البتہ اس ملاقات کے حوالے سے اب تک یہ نہیں بتایاگیا کہ آیا حکومت نے حزب اسلامی کا مطالبہ تسلیم کرلیا ہے یاپھر اشرف غنی گلبدین حکمتیار کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ افغان میڈیامیں سپریم سٹیٹ کونسل کے حوالے سے اب تک سامنے آنے والی اطلاعات سے پتا چلتا ہے کہ اس کونسل کی رکنیت کے لئے اب تک 18 افراد کی فہرست تیار کی گئی ہے لیکن صدارتی محل نے کہا ہے کہ یہ ابھی حتمی نہیں ہے اور اس حوالے سے مشاورت جاری ہے۔ مبصرین کاکہنا ہے کہ سپریم سٹیٹ کونسل قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے ساتھ اس وقت تشکیل دی جانی تھی جب گذشتہ سال اشرف غنی اور عبداللہ عبد اللہ نے ایک سیاسی معاہدے پر دستخط کیے تھے لیکن پچھلے مہینوں کے دوران چونکہ اس کونسل کی تشکیل پر کام نہیں ہوسکا ہے اس لیئے اب جب امریکی افواج کے انخلاء کا وقت قریب آرہا ہے اور طالبان کی جانب سے حملوں میں تیزی آرہی ہے تو صدراشرف غنی نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی غرض سے اس کونسل کی تشکیل کاعندیہ دیاہے۔حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں سپریم سٹیٹ کونسل جیسے کسی قومی فورم کی ضرورت شاید اس سے پہلے اتنی محسوس نہیں کی گئی جتنی کہ اب کی جارہی ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں یہ ایک اہم مرحلہ ہے جس کے دوران افغان قیادت کو انتہائی محتاط اور مدبرانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ اس وقت افغانستان میں جو صورتحال ہے اس کے اثرات پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔