نو حہ غم ہی سہی ۔۔۔۔

آزاد جمو ں کشمیر کے انتخا بات ہو نے والے ہیں اس کے بعد ملک میں بلدیا تی انتخا بات کا اعلا ن ہوا چا ہتا ہے انتخا بات چا ہے بلدیا تی ہوں، عام انتخا بات ہوں یا ضمنی ہوں ان میں خو شی کا کوئی لمحہ نہیں آتا ایک دوسرے کے جا نی دشمنوں کو میدان میں اتار کر طبل جنگ بجا یا جاتا ہے  الزامات کا بازار گرم کیا جا تا ہے مر زا غا لب نے غزل کے ایک شعر میں ہمارے گھر کی رونق کا نقشہ پیش کیا ہے۔
اک ہنگا مے پہ مو قوف ہے گھر کی رونق 
نو حہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی 
یہ وطن عزیز کی سیا ست کا منظر نا مہ ہے پو لیٹکل سائنس کی آن لائن کلا س میں طا لب علم نے پرو فیسر سے سوال کیا کہ ہمارے ہاں سیا ست کو ذاتی دشمنی اور شخصیات کے شدید ٹکراؤ میں کیوں تبدیل کیا گیا؟ پرو فیسر نے کسی تا مل کے بغیر جواب دیا سیا ست حقیقت میں نظریات پر استوار ہوتی ہے بر طا نیہ کی کنزر ویٹو پارٹی  اور امریکہ کی ری پبلکن پارٹی قدامت پرست جما عتیں ہیں ان کے مقابلے میں لیبر پارٹی   ا ور ڈیمو کریٹک پارٹی سب نظر یاتی جما عتیں ہیں اس لئے وہاں نظریات پر بات ہو تی ہے منشور کے حوالے سے گفتگو ہو تی ہے پارٹی کے پروگرام کو مو ضوع بحث بنا یا جا تا ہے اس میں شخصیات کا ذکر بہت کم آتا ہے ان کے مقا بلے میں وطن عزیز پاکستا ن کی سیا ست میں نظر یات کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے پارٹی منشور اور پرو گرام بھی زیر بحث نہیں آتا اس بنا ء پر دونوں طرف سے شخصیات پر گفتگو ہوتی ہے شخصیات کو نشا نہ بنا یا جاتا ہے شخصیات کی بحث ذا تی دشمنی کو جنم دیتی ہے جو وقت گذر نے کے ساتھ جا نی دشمنی میں بدل جا تی ہے اس لئے انتخا بات میں جا نی دشمنی آمنے سامنے نظر آتے ہیں گذشتہ سال گلگت  بلتستان کے انتخا بات  مزید دشمنیوں کو جنم دے کر  پا یہ تکمیل کو پہنچ گئے ضمنی انتخا بات میں بھی ذاتی دشمنی کا رنگ غا لب نظر آیا دوسیا ستدانوں کے درمیاں مقا بلہ ہو تو سپورٹس مین سپرٹ کے تحت ہار جیت کو تسلیم کیا جاتا ہے ذاتی دشمنی میں ہار جیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ آنے والے انتخا بات چا ہے آزاد کشمیر کے ہوں یا بلدیا تی اداروں کے ہوں، دونوں پر خدشات اور شبہا ت کے گہرے سائے منڈ لا  رہے ہیں، خطرہ ہے کہ انتخا بی مہم میں ایک دوسرے پر الزا مات کی بو چھا ڑ کی جا ئیگی جو ابی الزامات سے مخالفین کی توا ضع ہو گی گویا ایک بار پھر ہم دنیا کے سامنے تما شا بن کر رہ جائینگے قانون کی آن لائن کلا س میں ایک طالب علم نے پر فیسر سے سوال کیا کہ ہمارے ملک کے سیا ست دان بالغ نظر کیو ں نہیں ہیں؟ ان میں وسیع القلبی کا فقدان کیوں ہے؟ عدم برداشت کا کلچر کس وجہ سے آیا ہے؟ پرو فیسر ایک سینئر وکیل تھے انہوں نے جواب دیا کہ بالغ نظری تجربے سے آتی ہے وسیع القلبی مطا لعے سے آتی ہے قوت برداشت کا تعلق سیا سی منشور اور پروگرام سے ہے۔ ان تینوں عوامل کو ہمارے ہاں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ہمارے زیادہ ترسیا ستدا نوں نے کبھی اس پر غور نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ سیا ست کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھتا۔