ایک تو جھلسا دینے والی گرمی۔اوپر سے بازاروں میں رش۔انسان ہوں یا گاڑیاں۔بندہ بے بس۔ایک اور عذاب۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ۔ ہر دو گھنٹے کے بعد ایک گھنٹہ بجلی کا جانا ٹھہرے گا۔اگر ذرا تیز ہوا چلے تو بہانہ سازی کہ بجلی کی تاروں کے ٹوٹ کر گرنے کا خطرہ۔آندھی اسلام آباد میں چلے۔ ایک سو پچاس میل فی گھنٹہ۔مگر بجلی یہاں کے واپڈا کے ناپسندیدہ علاقوں میں ٹرپ کرجائے گی یعنی جہاں نادہندہ زیادہ ہیں۔ جائے گی اور مڑ کر دوسرے دن آئے گی۔ عین رات کو ایک بجے جانا دوسرے دن نو بجے آنا۔ اگر سزا دینا ہے تو جن کاقصور ہے ان کو دیجئے جو سزاوار نہیں ان کو اسی چکی میں کیوں پیس ڈالتے ہیں جہاں گیہوں کے ساتھ گھن بھی پستا ہے۔بازاروں کی حالت نہ کہنی بہتر کہ ہم تو دیکھ دیکھ کر کڑھتے ہیں۔ جلتے مرتے کھپتے ہیں۔آپ کو کیوں جلائیں مگر تھوڑا سہی عبرت کیلئے کچھ ذکر تو کرنا ہے۔محسن بھوپالی کا شعر ہے کہ ”ہماری جان پہ دہرا عذاب ہے محسن۔ کہ دیکھنا ہی نہیں ہم نے سوچنا بھی ہے“۔لوگ تو بازار سے نادار سہی مالدار سہی آنکھیں بند کرکے گذر جاتے ہیں۔مگر ہم نظام کی جو بربادی دیکھتے ہیں۔گھٹ گھٹ کرمرتے ہیں۔ کہیں کیا کہیں کیا ہو تا ہے۔گھر جا کر بازار کی اس معاشرے کی حالتِ زار پر سوچنا ہے۔ یہ کہ آخر یہ گھن چکر کیسے درست ہوگا۔کس کس ابتری کا حال رقم کریں گے۔ مگر ”ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے۔ گذری ہے جواس دل پہ رقم کرتے رہیں گے“۔بازار جاؤ خواہ جو بازار ہے۔شہر کے اندر یا باہر۔چھوٹایا بڑا بازار۔بندہ بندے کے پیچھے لگا ہے کہ کس طرح دوسرے کی جیب پر پر ہاتھ صاف کرے۔بعض تاجروں کی کوشش یہ ہے منافع زیادہ سے زیادہ کمائیں۔ شکایت کرو تو حکومتِ وقت کے سر ملبہ ڈالنے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں۔فرماتے ہیں اجی ٹیکس زیادہ لگے ہیں۔ جہاں سے لاتے ہیں وہاں زیادہ رقم لیتے ہیں۔ہم کیسے سستا بیچیں۔ آخر ہم نے بھی کچھ کماناہے۔دل میں کہتے ہوں گے زیادہ تر بچانا ہے۔حساس دل والے تو بازاروں سے لوٹ کر آئیں تو گھنٹوں بیٹھے سوچتے رہتے ہیں۔ دراصل شہر کی آبادی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ لاکھوں انسان ہیں اور زیادہ ہو رہے ہیں۔ وہی راستے جو پہلے تھے وہی کے وہی ہیں اور وہیں کے وہیں ہیں۔ان میں کوئی اضافہ نہیں ہورہا۔ ایک سسٹم بنانے کی کوشش ہے۔وہ یہ کہ سڑکوں کو مزید بیرئیر رکھ کر بند کردیتے ہیں تاکہ ون وے میں مخالف سمت کی گاڑیاں نہ گھسیں۔ مگر گاڑیاں آن گھستی ہیں۔اتنا تو پتا ہے کہ لکھنے سے کسی کے کان پر جوں نہیں رینگے گی مگرہم نے لکھنا ہے۔ فراز نے درست کہا تھا”جہاں بھی جاناتو آنکھوں میں خواب بھر لانا۔ یہ کیا کہ دل کو ہمیشہ اُداس کرلانا“۔ہم تو گھر لوٹ کر آئیں تودل کو اُداس کر لاتے ہیں۔ پھاٹک ہشتنگری کے پار ون وے میں پل کے پاس دو گاڑیاں کھڑی ہیں۔جن کی وجہ سے ٹریفک میں شدید خلل ہے۔ دونوں گاڑیوں کے پچھواڑے آپس میں ملا دیئے گئے ہیں۔ ایک گاڑی سے سامان اتار کر چپکائی گئی گاڑی کے اندر لوڈ کیا جارہاہے۔کسی کو ون وے کا خیال ہی نہیں۔ میں تو کہتا ہوں کہ سڑک کے درمیان کی گرین بیلٹ اکھاڑ کر ایک طرف کر دی جائے۔کرنے دیں ان کو جو کرتے ہیں۔ سڑکوں کی ترتیب کا فائدہ کیا جو گاڑیاں ون وے گھسی سامنے سے آرہی ہیں۔ اگرچہ سائیڈ پر سہی مگر اتنا تیز جیسے انھوں نے اس ون وے کو اپنے حصے کا ون وے ٹریک سمجھ لیا ہو۔اب بندہ کس کس کے ساتھ الجھے گا۔ کس کس کو روکے گا۔الٹا سر ہو جائیں گے۔لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔بلکہ ہم سیدھے جانے والے قصوروا رٹھہرائے جائیں گے۔ اس لئے خاموشی ہی بہتر ہے۔مگر یہ خامشی جوں شمع ہے۔”خواجہ میر در د کا شعر ہے“ سرتا قدم زبان تھے جو ں شمع گو کہ ہم۔پر یہ کہاں مجال کہ کچھ گفتگو کریں“۔”شمع کی مانند اہلِ انجمن سے بے نیاز۔ اکثر اپنی آگ میں چپ چاپ جل جاتے ہیں لوگ“۔ سو ہم نے دیکھناہے مگر سوچنا ہے اور پھر سوچ سوچ کر کر جلنا ہے۔موم بتی کی طرح اس گرمی کے عالم عین دوپہر کو سورج تلے اور چپ چاپ رہنا ہے۔