بھارت افغانستان میں اپنا اثرورسوخ اور کردار بڑھانے کیلئے کوشاں ہے تو کیا ماضی میں اس کے پاکستان مخالف کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان افغانستان میں اس کی ان ارادوں اور کوششوں کو نظر انداز کرسکتا ہے؟بھارت اور پاکستان روایتی حریف ہیں۔ ان کے درمیان کئی بڑی چھوٹی جنگیں ہوئیں۔ بھارت پاکستان کو ہمیشہ سے سیاسی اور فوجی طور پر غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے اور مشرقی پاکستان سے کراچی، قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں اس کی مداخلت اور دہشت گردوں سے مراسم کھلے راز ہیں۔ اب وہ افغانستان کو بھی اپنے دام میں اور زیر اثر لانا چاہتا ہے۔بھارت مستقبل کے افغانستان میں اہم کردار کا خواہشمند ہے کیوں کہ وہ سمجھتا ہے افغانستان میں اس کے تزویراتی اور معاشی مفادات ہیں جن میں افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنا وہاں پاکستان، چین کا اثر و رسوخ کم کرنا، پاکستان مخالف قوتوں کی حمایت کرنا اور وسط ایشیائی ممالک تک تجارت کیلئے رسائی حاصل کرنا شامل ہیں۔ امریکہ اس سلسلے میں اس کی مدد کررہا ہے۔ بھارت کے وزیر خارجہ سبرامنیم جئے شنکر نے گذشتہ ہفتے واشنگٹن کے دورے کے بعد کہا کہ امریکہ کے خیال میں بھارت افغانستان کے مستقبل کے بارے میں بات چیت کا ”اہم“ حصہ ہے۔افغانستان سے امریکی و نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد طالبان افغانستان کی سب سے بڑی طاقت ہوں گے۔ لیکن بھارت غلط طور پر سمجھتا ہے کہ اس کے پاس دو ہی راستے ہیں۔ یا تو وہ کسی طرح سے افغان طالبان کے قریب آ جائے یا پھر یہ ان کے خلاف شمالی اتحاد اور افغان حکومت کا ساتھ دے اور افغانستان میں خانہ جنگی کا سرپرست بن جائے۔ فی الحال وہ ایک طرف طالبان کے خلاف افغان حکومت اور شمالی اتحاد کی مدد کررہا ہے اور دوسری طرف عرب ممالک کے تعاون سے طالبان سے رابطے قائم کرنے کی کوشش بھی کررہا ہے۔ چنانچہ مستقبل قریب میں اس کے افغان جنگ میں فریق بننے اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے امکانات و خدشات بڑھتے جارہے ہیں۔بھارت کو طالبان اور ان کے زیر سایہ افغانستان بارے تشویش ہے مگر یہ بوجوہ بے جاہے۔ ایک تو طالبان کے کوئی بین الاقوامی عزائم نہیں ہیں۔ اور اگر طالبان بھارت کو دوست نہیں سمجھتے تو دشمن بھی نہیں۔ پھر طالبان اگر پاکستان کے تھوڑے قریب ہیں تو بھارت اسے ناحق اپنے خلاف اتحاد نہ سمجھے اور نہ ہی اب تک طالبان نے بھارت کے خلاف کوئی ایسا قدم اٹھایا ہے۔ اس تعلق کی اساس بھارت دشمنی نہیں بلکہ یہ ہے کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ پچیس سو کلومیٹر مشترکہ سرحد رکھنے والا پڑوسی مسلمان ملک ہے۔ یہ افغانستان میں بدامنی سے شدید متاثر ہوا بھی اور آئندہ بھی ہوگا اس لیے افغانستان میں امن پاکستان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس بھارت افغانستان کا پڑوسی بھی نہیں ہے۔ افغانستان میں اپنے زیادہ کردار و اثرو رسوخ سے بھارت کا اصل مقصد پاکستان کو قابو میں رکھنا اور پریشان رکھنا ہے۔ افغانستان اپنے معدنی ذخائر اور تیل و گیس سے مالامال وسطی ایشیا ممالک سے تجارت کا گیٹ وے ہونے کی وجہ سے اہم تزویراتی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان ماضی میں بھارت کے کردار اور مشرقی سرحد پر کشیدگی کے پیش نظر اس کے زیراثر افغانستان اور اپنے مغربی سرحد پر کشیدگی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اس کی پریشانی فطری بات ہے۔بھارت اور افغانستان کے درمیان اکثر دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔ بھارت سوویت حمایت یافتہ جمہوریہ افغانستان کو تسلیم کرنے والا واحد جنوبی ایشیاء ملک تھا۔ اسی کی دہائی میں بھارت افغانستان میں تعمیر و ترقی کیلئے وسائل دیتا رہا لیکن جب طالبان نے اقتدار سنبھالا تو یہ امداد روک دی گئی کیوں کہ وہ پاکستان کے قریب سمجھے جاتے تھے۔جب اکتوبر 2001 میں امریکہ نے طالبان حکومت کو ختم کیا اور حامد کرزئی افغانستان کے صدر بن گئے تو بھارت کو افغانستان سے پھر ماضی کے تعلقات بحال کرنے کا موقع ملا۔بھارت نے افغانستان میں اپنا سفارت خانہ اور چار قونصل خانے کھول دیئے اور اس کے تعمیر نو کیلئے کھربوں روپوں کی امداد اور سرمایہ کاری کی۔ اس کا مقصد افغانوں میں اپنے لیے خیرسگالی اور پاکستان بارے غلط فہمیاں پیدا کرنا تھا۔ وہاں اس نے پاکستان مخالف دہشت گرد گروہوں کو اکٹھا کیا اور انہیں تربیت اور مالی معاونت فراہم کرنا شروع کروادی۔ تاہم ان کوششوں کے باوجود دیہی افغانستان کے پختون پاکستان کو پسند کرتے ہیں مگر وہاں کا بالادست طبقہ، جو پہلے روس اور اب امریکہ کے زیر اثر ہیں، پاکستان سے زیادہ بھارت کے قریب ہے۔ وہ بھارت کی سازش اور اکسانے پر پاکستان پر بے بنیاد الزام تراشی کررہا ہے۔ لیکن افغانستان بھارت کے عزائم اور ماضی کو مدنظر رکھے اور یہ بھی کہ وہ اس کا پڑوسی بھی نہیں۔ اور یہ بھی کہ ہندو انتہا پسند افغانستان کے قطب الدین ایبک، محمود غزنوی، محمد غوری اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں کو ابھی تک یاد رکھے ہوئے ہیں اور افغانوں سے ان کا بدلہ لینے کیلئے کسی مناسب موقع کے انتظار میں ہیں۔ بھارت کی شہہ پر افغانستان پاکستان پر الزامات لگاتا رہا ہے۔ حال ہی میں افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب کے انتہائی افسوس ناک بیان کے بعد پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس سے امن مذاکرات میں کوئی رابطہ نہیں رکھے گا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا”میں افغان صدر اشرف غنی سے پوچھنا چاہتا ہوں: ایک طرف آپ پاکستان سے مدد کی درخواست کر رہے ہیں اور دوسری طرف آپ کے ملازم پاکستان پر الزامات لگا رہے ہیں اور پاکستانی اداروں پر تنقید کر رہے ہیں۔ آخر آپ چاہتے کیا ہیں“پاکستان نے پاک افغان سرحد پر درندازی روکنے کیلئے آہنی باڑ لگائی، سرحد پر ہزاروں نگران چوکیاں قائم کیں، آمد و رفت کو منظم بنایا اور پاک افغان سرحدی علاقوں سے دہشت گردوں کا صفایا کرکے اپنی عمل داری قائم کروائی لیکن افغان حکومت نہ سرحد پر باڑ لگانے اور اپنی طرف نگران چوکیاں تعمیر کرنے کیلئے تیار ہے نہ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی واپسی کیلئے کیوں کہ اس کے بعد ان کے پاس پاکستان پر دراندازی کا الزام لگانے کا موقع نہیں رہے گا۔پاکستان افغانستان میں امن سے فائدہ اٹھاتا اور بدامنی سے نقصان اٹھاتا ہے۔ وہ افغانستان میں دیرپا امن کیلئے ایک جامع بین الافغان معاہدے اور افغان عوام کی منتخب کردہ حکومت کیلئے کوشاں ہے۔ خوش قسمتی سے چین افغانستان اور پاکستان کے درمیان غلط فہمیاں دور کرنے اور تعاون بڑھانے کیلئے کوششیں کررہا ہے۔ چار جون کو سہ فریقی ڈائیلاگ میں تینوں ممالک افغانستان میں امن کیلئے آٹھ نکات پر متفق ہوگئے ہیں۔ تو کیا امید کی جانی چاہئے کہ اب افغانستان کی جانب سے پاکستان پر بے بنیاد الزامات کا سلسلہ بند ہو جائے گا اور افغان امن کیلئے اس کی خدمات کا اعتراف کیا جائے گا؟