ایک شور شرابا ہے۔ یہاں لفظ بولتے ہیں اور شور مچاتے ہیں۔ بندے خاموش ہیں۔ بندوں کی انگلیاں حرکت کرتی ہیں۔مگر اس کے باوجود یہ دنیا بہت پُر کشش ہے۔ لوگوں نے ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔اب تو سب کچھ بلکہ اس کے علاوہ اور سچ مچ بغیر لگی لپٹی رکھے اس چھوٹی سکرین پر بیان ہو جاتا ہے۔ کوئی اپنے لب و دہن سے بات کرتا ہے کوئی اپنے الفاظ کے ذریعے پھول کھلاتا ہے۔پھر کوئی تو ا ن الفاظ سے آگ ہی لگا دیتاہے۔ پھر کوئی اسی لفاظی سے گل کھلاتاہے۔ یہاں لوگ الجھے ہوئے ملتے ہیں۔محبتیں بھی ہیں اور نفرتیں بھی کھلم کھلا ہیں۔ کوئی کسی کو روک نہیں سکتا۔ کسی کے منہ پرہاتھ نہیں رکھا جا سکتا۔جس کو بولنا ہے وہ بولے گا۔کسی کے خلاف بولے گا مگر اس کو نکیل ڈالی نہیں جا سکتی۔ کوئی الزام لگا رہاہے تو کوئی الزام کاجواب دے رہاہے۔ پھر تو دمادم ڈھول بجتے ہیں اور الزام لگانے والے اپنے لاؤ لشکر اور حواریوں کے ساتھ مووی کلپ لے کر میدان میں اتر آتے ہیں۔پھر جس پر الزام لگا اس پر مزید الزامات کی بارش ہونے لگتی ہے۔کوئی شخصیت ہو اس میڈیا پر نیک نام کم ہوگی مگر اسے بدنام کرنا ہو تو آن ِ واحد میں دوسروں کی نظروں سے گرا دی جاتی ہے۔کیا اندھیرا کیا اجالا کیا دودھ اور کیا دودھ میں ملا ہوا پانی سب کچھ الگ الگ کر دیتے ہیں۔ بلکہ ہم لوگ جوجاننا چاہتے ہیں وہ سبھی کچھ بتلا دیتے ہیں۔مگر یہ جو اپنے پاس سے کچھ اچھی باتیں بنا کرکسی بڑی شحصیت کے قول کے طور پر پیش کر دیتے ہیں۔ یہ برا کرتے ہیں۔ خوبصورت لکھائی ہوگی۔ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ آپ نے جوپوسٹ لگائی اس کا سورس کیا ہے۔یہ قول ِ زریں آپ نے کس کتاب سے اور کس صفحہ پرسے دیکھ کر نقل کیا ہے۔مگر ان تمام باتوں کے باوجود مجھ جیسے بیوقوف سوشل میڈیا پر اعتبار بھی خوب کرتے ہیں۔ ”کسی کا شعر ہو کرتے ہیں تیرے نا م رقم“شعر اپنی سی فیکٹری میں تیار کیا گیا ہوگا اور اس کو معروف مشہور شاعروں کے نام کے ساتھ باندھ کر اس رنگین سکرین کے آسمان پر پتنگ کی طرح اڑا دیں گے۔پھرکون دیکھتا ہے کہ شمع کایہ پتنگا کس طرف سے آیا ہے۔بس لوگوں کی نگاہیں سوئے آسمان لگی رہتی ہیں۔رنگوں کی بہار دیکھتے رہتے ہیں۔بے نام شاعر کا غیر معیاری کلام خوبصورت طباعت کے ساتھ پیاری سی لکھا ئی میں اور موسیقی کے خوبصورت بیک گراؤنڈ میں غزل کے سے انداز میں پیش کریں گے۔ عام لوگ تو اس پر واری واری جانے لگتے ہیں کہ بہت زبردست غزل ہے۔ مگر افسوس نہ تو وہ غزل ہوتی ہے اور نہ ہی زبردست ہوتی ہے۔بس باتیں ہیں جو کمپیوٹر گرافکس کے سہار ے کاغذی جہازوں پر اڑتی ہیں اور جلدی سے گر جاتی ہیں۔عام لوگ تو ان کے دھوکے میں آ جاتے ہیں۔مگر چالاک نگاہ رکھنے والے کسی مووی کو اندر باہر سے اتنا پھرولتے ہیں کہ ان کو اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ تصویر ویڈیو جعلی ہے۔ اصلی اور واقعاتی نہیں۔بلکہ ڈرامہ کر کے بنائی گئی ہے۔کیونکہ کردارں کی نا پختہ کوئی ایک حرکت اس ویڈیو کاپول کھول دیتی ہے۔ مگر پھر وہی بات کہ ڈرامہ نگاری اور ڈرامہ کے فن سے وابستہ گہری نگاہ رکھنے والے ہی اس موقع پرسب راز اندر اندر جان لیتے ہیں۔ عام شام کو الو بنانا بہت آسان ہوتاہے۔ یہ جو آرٹ سے نا آشنا ہیں ان کو شیشے میں اتارنا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے‘ میں اگر کہوں کہ فیس بک فارغ لوگوں کا کھیل ہے تو شاید کچھ حضرات ناراض ہو جائیں اس لئے میں نہیں کہتا۔سارا دن گود میں موبائل کوبلی کے بچے کی طرح لے کر بیٹھے رہیں گے او ریہ بے زبان احتجاج بھی نہیں کر سکتا۔ اس کواٹھا کر کبھی ایک کمرے میں کبھی دوسرے کمرے میں جائیں گے۔کانوں کے ساتھ وائی فائی کی شعاعوں تلے ہینڈ فری کی ٹونٹیاں لگی ہوں گی۔ کیونکہ کمرے میں پاپا ٹی وی پر خبریں سن رہے ہوں گے۔ ان کے ڈر کے مارے کانوں میں دبائی گئی آواز کو سرِ عام نہیں کر سکتے۔ٹک ٹاک پر توخوب بے وقوف بنایا جاتا ہے۔مگر کمال ہے کہ دیکھنے والے صارفین ناظرین جانتے بوجھتے گاؤدی بن جائیں گے۔حالانکہ ان کو معلوم ہوگا کہ سب کچھ اول فول ہے۔مگر جھوٹ کا اپناایک مزا ہوتاہے۔جب تلک وہ جھوٹ ملاحظہ نہ کیا جائے دل اچھا نہیں ہوتا۔بعض بڑے عہدوں پر فائز اور مشہور لوگوں کو ان کے پروفائل کی تصویر میں دیکھ کرہنسی چھوٹ جاتی ہے۔وہ تعلیم یافتہ اور تعلیم دینے والے ہاتھ میں کلاشنکوف لے کر تصویر نکلوا کر فیس بک کی دیوار پر چسپاں کر دیں گے۔ وہ غلط اس لئے نہیں کرتے کہ ہمارا کلچر ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اس قسم کی الٹی پلٹی حرکات کریں۔کیونکہ ہمارے ہاں پستول کو زیادہ رواج ملاہے اور قلم کو نہیں ملا۔ حالانکہ اس موقع پر بعض بڑی شخصیات کو چاہئے کہ وہ کاغذ قلم لے کر اپنی تصویر دوسروں کو شیئر کریں تاکہ ان کی شہرت کے مطابق ان کا امیج بنے۔ناصر کاظمی نے کہا ہے نا کہ ”ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر اداسی بال کھولے سو رہی ہے“۔اس لئے فیس بک کی وال پر بھی اداسی بال کھولے سو رہی ہے کیونکہ کوئی تخلیقی کام نہیں بس گپ شپ اور سیر سپاٹا ہلاگلاہے۔۔پٹھورے نکل رہے ہیں اور ہوا میں چھوڑے جا رہے ہیں۔ اس طرح یہ کہنا مشکل نہیں کہ سوشل میڈیا ہماری زندگی کا وہ رخ ہے جس کو نظر انداز کرنا ناممکن ہے۔