والی بال

 پاکستان کی سینئر ’والی بال‘ ٹیم 1989ء کی ’سیول ایشین چیمپیئن شپ‘ میں چوتھے نمبر پر آئی تھی لیکن اِس کے بعد کبھی بھی پاکستانی ٹیم نے کم سے کم اِس قدر ہی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور بعد میں ہونے والے بیشتر مقابلوں میں یہ ساتویں اور آٹھویں پوزیشن پر رہی۔ مسئلہ یہ نہیں کہ پاکستان کے پاس اہل کھلاڑیوں (ٹیلنٹ) کی کمی ہے۔ اگر پاکستانی کھلاڑی والی بال مقابوں میں چین اور بھارت جیسی مضبوط (تجربہ کار) سمجھی جانے والی ٹیموں کو شکست دے سکتے ہیں اُور جمہوری اسلامی ایران کی ٹیم کو مشکل سے دوچار کر سکتے ہیں تو اِس کا مطلب ہے کہ پاکستانی ٹیم میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں صرف حکومتی توجہ درکار ہے اِس سلسلے میں اگر حکومت تعاون کرے تو قومی سینئر اور جونیئر ٹیموں کو یورپی ممالک کے دوروں پر بھیجا جا سکتا ہے جہاں وہ کھیل کر تجربہاُور مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔ عالمی مقابلوں میں شرکت کرنے والے کھلاڑیوں کومضبوط اعصاب کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ زیادہ بڑے مجمعے کے سامنے اور دباؤ آنے کی صورت میں اچھی کارکردگی (بہتر کھیل) کا مظاہرہ کر سکیں۔ دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ پاکستان کی قومی والی بال ٹیم کھیل کا آغاز تو اچھا کرتی ہے لیکن بعدازاں کھیل کے دباؤ اور اعصابی تھکاوٹ کی وجہ سے ’ٹیم ورک‘ برقرار نہیں رکھ پاتی جس کے وجہ سے مدمقابل ٹیم کے سامنے ڈھیر ہو جاتی ہے۔رواں ہفتے (سات جون سے) واہ کینٹ میں ’والی بال‘ کا تربیتی کیمپ لگایا جا رہا ہے جس میں شرکت کیلئے اطلاعات کے مطابق پہلے22 کھلاڑیوں کو مدعو کیا گیا اور بعدازاں اِن کی تعداد کم کر کے 18 کر دی گئی۔ کھلاڑیوں کا چناؤ نیشنل چیمپیئن شپ‘ آخری ایشین چیمپیئن شپ‘ انٹر ٹوئنٹی اور انڈر ٹوئنٹی تھری مقابلوں میں کارکردگی کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ ایشین چیمپیئن شپ مقابلوں سے قبل یہ تربیتی کوششیں تین ماہ جاری رہیں گی اور اگر حکومتی سطح پر فیصلہ سازوں نے دلچسپی لی اور والی بال کی سرپرستی کو ایک سطح بلند کیا تو پاکستانی کھلاڑی جاپان میں ہونے والے والی بال مقابلوں میں بھی شرکت کر سکتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ ہر عالمی مقابلہ کھلاڑیوں کی استعداد‘ تجربے اور اعتماد میں اضافے کا باعث بنتا ہے اِس لئے جہاں تربیت ضروری ہے وہاں زیادہ سے زیادہ عالمی مقابلوں میں شرکت سے بھی والی بال کے کھیل میں پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کو سربلند کیا جا سکتا ہے۔ اِس سلسلے میں تعلیمی اداروں کی سطح پر ’والی بال‘ کے کھیل کو ورزشی معمولات کا حصہ بنا کر بھی اِس کھیل کی جانب رغبت پیدا کی جا سکتی ہے۔ والی بال کھیلنے کیلئے عالمی معیار کے مطابق گراؤنڈ بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ مختلف جمنازیم تو موجود ہیں لیکن پاکستان میں عالمی مقابلوں کا انعقاد نہیں ہوتا۔ نئے مالی سال کا بجٹ تیاری کے مراحل سے گزر رہا ہے اور اگر اِس موقع پر ہر صوبے زیادہ نہیں تو صرف ایک ایک والی بال ہالز تعمیر کر دیئے جائیں تو اِس سے تربیت کے مواقعوں میں اضافہ ہوگا اور صرف یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے والی بال کو دیگر کھیلوں کی طرح اہمیت دی جاسکتی ہے۔