جون کی گرمی یا خون کی گرمی 

 ہمیں تو پنکھے کی ہوا بھی قبول ہے۔مگر میسر توہو۔ یہاں تو جھلسا دینے والی ہوائیں ہیں۔ گرمی کے ان دنوں آہ و بکا کی صدائیں ہیں۔ مگر پنکھے کی ہوا نہیں اور سرد فضا نہیں۔ بجلی کی چال ڈھال بلکہ چال چلن ہی  ٹھیک نہیں رہا۔ جہا ں یو پی ایس نہیں وہ کیا کرتے ہوں گے۔ جہاں جنریٹر نہیں کہ بجلی کو چلایا جاسکے وہ بھی ہماری طرح مرتے کھپتے ہوں گے۔گھروں کی بیبیاں ہیں تو پریشان۔نہ تو کپڑے دُھل پاتے ہیں اور نہ ہی سکون کی سانسیں سینے میں آتی جاتی ہیں۔جو یوپی ایس ہیں وہ تو پہلے دن بھر کام کرتے تھے۔ مگر اب تو گھنٹہ چلتے ہیں اور وہ بھی ایک پنکھے کو گھسیٹ گھسیٹ کر بیساکھی کے سہارے چلتے ہیں۔پھر اگر دو پنکھے لگ جائیں تو بیٹری آدھ گھنٹہ چل پاتی ہے۔بیٹری اٹھا کر اس گرجتی برستی دھمکاتی گرمی میں لے کر بیٹری والے کی دکان پر پہنچو تو سات ہزار کا نسخہ دے گا۔ بالفرض بیٹری ٹھیک کروا کر گھر لے آئے تو دو چار دن کے بعد یوپی ایس کام کرنا چھوڑ دے گا۔ اس کے لئے بجلی کے مستری کی الگ دکان ہے۔ہمارے ہاں گرمیاں کیا آتی ہیں سختیاں آ جاتی ہیں۔ بور والی مشین لگاؤ تو پانی اوپر نہیں آتا۔ کانوں میں پانی چور کی آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔پانی پورے علاقے میں نیچے چلا جاتا ہے۔ کنوؤ ں اور باولیو ں میں ان دنوں تو زمین کے اندر بھی پانی خشک ہو چلاہے۔پھر اگر پانی آتا بھی ہے تو بعض گھروں میں زیرِ زمین کیپسول والی مشین خراب ہو جاتی ہیں۔غریب آدمی کے بھی کیا کیا بکھیڑے ہیں۔ پھر اوپر سے گھر میں افرادی قوت نہ ہو بڈھا اکیلا ہو تو کہاں کہاں دوڑے گا۔ اب گلی کے بچوں سے ہر کام تو نہیں کروایا جا سکتا۔ بھلا بہت بھاری بیٹری جس کو دو آدمی اٹھاتے ہیں چھ بچے مل بھی جائیں تو بھی اٹھا نہیں پائیں گے۔مگر بجلی بھی تو ہو۔سب کام تو آج کل بجلی ہی کے ذریعے ممکن ہو پاتے ہیں۔بجلی اپنا گھناؤنا کھیل کھیلتی ہو۔پھر ان انگلیوں کے اشاروں پر چلتی ہو جو یہ نہیں چاہتے کہ بجلی کو فراواں کر دیا جائے رواں کر دیا جائے۔عوام سکون سے زندگی گذاریں۔ بس پیسے کا کھیل ہے پیسہ بناؤ جیب میں ڈالو ہر طرح۔”گل چڑھائیں گے لحد پر جن سے یہ امید تھی۔ وہ بھی پتھر رکھ گئے سینے پہ دفنانے کے بعد“۔ جن سے توقع ہے کہ معاشرے میں پھول کھلائیں وہ نئے نئے گل کھلارہے ہیں۔سو ان غریبوں کا پرسان کون۔”تونے اپنے دامنِ دل میں امیدیں چن تو لیں۔ ہیں مگر اس شہرِ نا پرساں میں ہرجائی بہت“۔یہ تو ہرجائیوں کی نگری ہے۔ پھولوں کا شہر تو نہیں۔ دھول مٹیاں ہیں اور ہمیں کھانا ہیں۔ خبر دار چینی کا نام بھی نہ لینا۔ ورنہ چینی تو کیا منہ میں خاک ڈالی جائی گی۔”توبہ کرکے توڑ ڈالی جائے گی“۔توجہ مٹ جائے گی اور بے خیالی آئے گی۔ بنجر زمینوں کی آبیاری ہوگی اور ہریالی جو پہلے سے ہے نوچ ڈالی جائے گی۔شہریوں نے ان دنوں گرمی کے وہ طمانچے کھائے ہیں کہ ان کے چہر ے جو لال ہیں وہ خون کی گرمی نہیں بلکہ جون کی گرمی سے ہیں۔بروز اتوار موسم کی تپش نے جو رنگ دکھلائے شہر یوں کی تو چیخیں نکل گئیں۔ ابھی تو جون کی ابتدا ہے۔مگر اب جون نے ختم ہونا ہے اور ہم نے جولائی کی گرمی کا منہ دیکھناہے پھر اس کے بعد اگست بھی گرم ہے۔پھر اگست تک ہوتا چلو صبر کر تے۔ مگر یہاں تو اور ہی معاملہ ہے۔کبھی ستمبر ٹھنڈ ے موسم کی ابتد ہوا کرتاتھا۔ اب تو گئے سالوں سے ستمبربھی گرم ہوتا ہے۔پھر اکتوبرکے پندرہ دنوں کے بعد موسم میں یخی آنا شروع ہو جاتی ہے۔موسموں کے تغیر و تبدل ہمارے ہاں کچھ زیادہ ہی ہونے لگے ہیں۔ اور ویسے بھی موسم کے حوالے سے ہرجائی کا لفظ استعمال ہوتا ہے تاہم اس وقت موسموں نے جو مزاج اپنایا ہے اس کے لئے ہرجائی لفظ کم پڑنے لگا ہے اور کسی اور لفظ کی تلاش ضروری ہے کب موسم کا کون سا روپ سامنے آتا ہے اس کی پیش گوئی کرنا مشکل ہو گیا ہے۔سیانے کہتے ہیں کہ یہ سب اپناکیا دھرا ہے۔ہم اگر اچھے ہوتے تو یہ موسم برے کیوں ہوتے۔ہم نے شہر کے ماحول کو داغدار کر دیا ہے۔جہاں آبادی زیادہ ہوگی وہاں موسم کی یہی ترتیب ہوگی۔ کیونکہ زیادہ آبادی زیادہ مسائل۔ ماحولیاتی آلودگی موسمی آلودگی کو جنم دیتی ہے۔کیا اچھا ہو کہ اس وطن میں کہیں سے بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی شکایت نہ آئے۔ مگر یہاں تو ارضِ وطن کا ہر گلی کوچہ بجلی کے سٹاک کے ہوتے سوتے شکایت کے لب کھولے ہے۔