بدعنوانی: اصطلاح و اصلاح۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں سیاسی و سماجی انصاف کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے بدعنوانی سے اظہار بیزاری اور ایک ’نئے پاکستان‘ کے نام سے اصلاحاتی لائحہ عمل متعارف کراتے ہوئے ’تحریک انصاف‘ کی جدوجہد برسراقتدار آنے کے بعد جس نئے مرحلے میں داخل ہوئی ہے‘ اُس سے وابستہ عوامی اُمیدیں پوری نہیں ہو رہیں۔ انسداد رشوت (بدعنوانی) کیلئے ایک سے زیادہ حکومتی ادارے بھی قائم ہیں اور سب کی کارکردگی ایک جیسی ہے کہ جب تک کوئی سائل اُنہیں شکایت نہ کرے اُس وقت تک یہ ادارے حرکت میں نہیں آتے جبکہ انسداد بدعنوانی کیلئے ’بھیس بدل کر طرزحکمرانی متعارف کروانا پڑے گی۔‘ اِسی کے ذریعے بدعنوانی کا جرم ثابت کرنے کیلئے دنوں ہفتوں اور مہینوں پر محیط سماعتوں کی ضرورت بھی نہیں رہے گی بلکہ رشوت ستانی کے مرتکب کرداروں کی پہچان اور اُن تک فوری رسائی ممکن ہو جائے گی۔ کیا تحریک انصاف ملک سے بدعنوانی (رشوت ستانی) ختم کرنا چاہتی ہے؟ یقینا تحریک انصاف کی مرکزی و صوبائی قیادت ہر سطح پر بدعنوانیوں کے خلاف ہے اور تحریک انصاف سے زیادہ شاید ہی کسی دوسری سیاسی جماعت نے بدعنوانی کے خلاف اِس قدر رائے عامہ ہموار کی ہو۔ حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان کا یہ بیان قومی و عالمی ذرائع ابلاغ کے  ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی سراہا گیا جس میں انہوں نے ایک ایسی حقیقت کا بیان کیا جسے پاکستان میں بدعنوانی کی جڑ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اُن کے جملوں کا ہر لفظ سنہرے حروف میں لکھنے کے قابل ہے لیکن کیا بدعنوانی کے بارے میں اِس قدر حقیقت پسندانہ مؤقف رکھنا کافی ہے اور کیا یہ مؤقف تن تنہا تبدیلی کا پیش ثابت ہو سکتا ہے؟ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ”(جہاں) حکمران کرپشن کرنے لگیں تو ملک دیوالیہ ہو جاتے ہیں‘ حکمران رشوت لیتے ہیں تو اس سے عام شہریوں کیلئے مسائل پیدا ہوتے ہیں‘ جب سربراہان ریاست‘ وزراء بدعنوان ہوتے ہیں تو وہ ملک قرض کی دلدل میں دھنس جاتے ہیں اور ان کا دیوالیہ نکل جاتا ہے۔“ پاکستان کی کل کہانی اُن کے چند جملوں میں بیان کر دی گئی ہے۔یادش بخیر وزیراعظم عمران خان کرپشن فری سوسائٹی اور بدعنوانی سے پاک وطن کا نعرہ لگا کر ہی میدان سیاست میں اُترے تھے اور اسی نعرے پر انہوں نے طویل سیاسی جدوجہد کی‘ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے اور وطن عزیز کی سیاست اور سماج کو کرپشن سے پاک کرنے کی ٹھان لی۔ اگرچہ وہ تین سال کے دوران اس عظیم مشن و مقصد کی راہ میں حائل رکاوٹیں بھی نہیں ہٹا پائے تاہم اس حوالے سے ان کا عزم متزلزل ہوا ہے نہ ان کے حوصلے پست ہوئے ہیں لیکن کرپشن کے خلاف جنگ کو وہ ابھی تک منطقی انجام تک پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ وہ گاہے بگاہے کرپشن سے اپنی نفرت کا اظہار ضرور کرتے رہتے ہیں لیکن اُن کے ’کلام ِنرم و نازک‘ سے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔ ضرورت سخت گیر اقدامات اور ایسی عبرت ناک سزائیں دینے کی ہیں جنہیں دیکھتے ہوئے بدعنوانی کے ذریعے عوام کی زندگیوں کو عذاب میں مبتلا کرنے والے اپنی حرکتوں سے باز آ جائیں۔ وزیراعظم اکثر اُن ممالک کی مثالیں دیتے ہیں جنہوں نے بدعنوانی سے نجات حاصل کی اور ترقی کی۔ قوموں‘معاشروں پر بدعنوانی کے بھیانک اثرات و خوفناک نتائج کے بارے بھی وزیراعظم بار بار آگاہ کرتے رہتے ہیں جیسا انہوں نے اپنے ایک ٹویٹر پیغام کے ذریعے بھی کیا ہے۔ کرپشن کے خلاف جنگ جیتنا وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی بقا کے لئے ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس سلسلے میں بے لاگ اور بے رحم احتساب نچلے طبقات سے نہیں بلکہ معاشرے کے اوپری طبقات سے شروع ہونا چاہئے‘ ارکان اسمبلی اور اعلیٰ افسروں کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنے سے عوام کا حکومت کی کوششوں پر اعتماد بحال ہو سکتا ہے تاکہ کرپشن فری سوسائٹی کے نعرہ کو عملی جامہ پہنایا جا سکے اور وطن عزیز واقعی پاکستان بن کر ایشیا میں ایک مثالی ریاست اور عمران خان کی زیر قیادت مثالی مملکت کے طور پر ابھرے۔ اگر خدانخواستہ کسی بھی وجہ سے کرپشن کے خلاف ’تحریک انصاف کی جدوجہد‘ کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکی تو پھر کبھی ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ نہیں ہو پائے گا۔ یہ صورتحال قیام پاکستان کی طرح ہے کہ اب نہیں تو پھر کبھی نہیں! حقیقت یہ ہے کہ کرپشن کا خاتمہ ملک کی ترقی کے لئے ضروری ہے دیکھا جائے تو جس قدر پسماندہ ممالک ہیں وہاں پر بدعنوانی کا دور دورہ ہے اور قومی وسائل ملکی ترقی کی بجائے بدعنوان حکمرانوں اور اہلکاروں کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں اس لئے تحریک انصاف کی حکومت نے کرپشن کے خاتمے کو اپنا اولین ترجیح قرار دے کر دانش مندی کا مظاہرہ کیا ہے جس سے مستقبل میں ترقی اور خوشحالی کی راہیں کھلیں گی۔