یہ ایک مٹھی ہی تو ہے۔جس کو کھولو تو جانیں۔ کہیں خیال آتا ہے کہ اس میں جگنو ہیں۔پھر دھیان جاتا ہے کہ ان پانچ انگلیوں کی یکتائی میں کہیں خواب نہ ہوں۔ڈرتا ہوں کہ مٹھی کھول دی تو اس میں سے یہ سرمایہ اڑ کر کہیں اور نہ چلا جائے۔مگر جگنو ہوں یا خواب ہوں بات تو ایک ہے۔جگنو رات میں چمکتے ہیں اور خواب دن کو جاگتی آنکھوں سے دیکھے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ خواب رات کے دیکھے جانے والے ہمارے خوابوں سے الگ ہیں۔ یہ غفلت کی نیند کے خواب ہیں۔ پھر دن کی روشنی میں دکھائی دینے والے خواب تو پلاننگ کے ہیں۔جو یہ آنکھیں ہمہ وقت دیکھتی رہتی ہیں۔مگر کیا وہ خوا ب شرمندہ تعبیر ہوں گے کیا یہ سپنے تعبیر کی لذت سے آشنا ہوں گے۔ مسئلہ تو اس پر ہے۔بند مٹھی میں جگنو ہو سکتے تھے مگر یہ تو مٹھی میں سنبھا ل کر رکھے ہوئے خواب ہیں۔ہم ان خوابوں کا حال ہر ایک سے بیان کرتے ہیں۔مگرکون کان دھرتا ہے۔فراز کاشعر ہے ”ایک تو خواب لئے پھرتے ہوں گلیوں گلیوں۔ اس پہ تکرار بھی کرتے ہوں خریدار کے ساتھ“۔مگر”میرے خواب ریزہ ریزہ“ہیں اور”خواب در خواب“ ہیں۔ ”خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں۔کاش تجھ کو بھی اک جھلک دیکھوں“۔”خواب تھا یا خیال تھا کیا تھا۔ہجر تھا یا وصال تھا کیا تھا“۔ یہ شاعروں کے ہاں دیکھے گئے خواب ہیں۔جو کبھی حقیقت کا روپ بھی دھار لیتے ہیں۔کبھی تو یہ خواب کوئی محل بنا لیتے ہیں۔جو تاج محل بھی ہو سکتا ہے اور کہیں جاکر یہی ایک آدھ خواب پورے ملک کو قیام میں لے آتے ہیں۔پشاور ایک مٹھی ہی تو ہے۔اس میں جاگ کر دیکھے جانے والے خواب ہی تو ہیں جو تعمیر کا ڈول ڈالتے ہیں۔ ایسا کہ بقولِ اقبال ”یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید۔ کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں“۔ نیا پشاور ابھی تعمیر ہو رہاہے۔پرانے پشاور اور اس کے گلی کوچوں کی یاد ہی باقی ہے۔ قدیم پشاور کی تصویری ہیں تو ہیں۔جو آنکھوں میں ایک جسم کا روپ دھار چکی ہیں۔ ہر چند آنکھوں کے باہر نہ سہی مگر آنکھوں کے اندر تو زندہ و پائندہ ہیں۔ پشاور کی ترقی کے خواب۔ جو پشاور اس وقت پھیلاؤ کی حالت میں ہے یہ نیا پشاور ہے جو دور دور تک جارہا ہے۔پرانے پشاور کو پیچھے نہیں چھوڑا اس کو ساتھ لئے ایک سنگم کی صورت میں۔ کیونکہ ماضی کو دیکھ کر اس کو یاد کر کے ہی تو مستقبل کی تعمیرو ترتیب طے پاتی ہے۔ مگر جو لوگ پرانے شہر کی یاد میں الجھے ہیں وہ بھول گئے ہیں کہ ان کو نئے پشاور والوں نے بھلایا نہیں۔ وہ یادیں وہ باتیں وہ ملاقاتیں سندھ اور دریائے کابل کی طرح جو اٹک پر رک نہیں جاتے آگے جاتے جاتے ہیں۔پشاور کی ترقی کے خواب اس مٹھی میں موجود ہیں جو اس وقت بند ہے۔یوں کہ کھولوں تو رنگوں کی بہا ر ہے۔اڑتے ہوئے جگنوؤں کی روشنیاں ہیں۔وہ پشاور جو ہمارے زمانے میں اس شہر کی چاردیواری میں مقیم تھا وہ اور تھا اور جو آج ان دروازوں کے باہر حرکت میں ہے وہی پشاور تو ہے۔جس کے رہنے والے فصیل ِ شہر سے باہر نکل کر نئی بستیاں آباد کر چکے ہیں۔کیا حیات آباد کیا گل بہار کیاورسک روڈکیا صدر کیا یونیورسٹی کا علاقہ کیا دلہ زاک روڈ کے دو اطراف کی رہائشی کالونیاں جو پیچ در پیچ ایک دوسرے میں سے ہوکر نکلتی ہوئی رواں دواں ہیں۔ مگر اندرونِ شہر کے باسی جانتے ہیں کہ بس پشاور تو یہی ہے۔ مگرمینا بازار کا رش تو گل آباد کے اندر کی مارکیٹوں میں بھی ہے۔پرانا تو تنگ و تاریک ہے۔نیا تو وسیع عریض۔ جو شہر سے باہر نئے شہر میں آگئے ہیں ان کو وسعت اور سیر بینی کی چاٹ لگی ہے کہ اندرون کے رہنے والوں پر حیران ہیں۔ پھر جو اندر کے رہنے والے ہیں وہ اپنے دائرے کو دنیا کاگلوب سمجھتے ہیں۔ مگر کہاں۔ دنیا تو وسعت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ پشاو رکھسکتے کھسکتے پھسلتے پھسلتے کہاں سے کہاں پہنچ کر دم بھر کو سانس بھی نہیں لے رہا۔ معمار جہاں نے شہر کے پرانے درددیوار گرا کر شہر کو پھیلا دیا ہے۔”جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلا ؤ ہے“۔ شہر والوں کی محبتیں ویسے کی ویسے قائم ہیں۔لوگ ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ہم سب کی جڑیں اندرون پشاور میں سہی مگر ہمارا ترقی کا پھیلا ؤ شہر سے باہر ہے۔ہم اس شہر کے ہیں اور یہ شہر ہمارا ہے۔وہ جو پہلے تھا اب نہیں رہا مگر اسی کو دیکھ کر نئے نقشے زیرِ ترتیب ہیں۔ نئے نظام کو متعارف کروایا جا رہاہے۔ترقی کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کیا جا رہاہے۔عنقریب یہ شہر وہ نہیں رہے گا جو ماضی میں تھا۔ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام دوڑا نہیں جا سکتا۔ دوڑ کے لئے آگے جانا ہوتاہے۔یہ ترقی کی دوڑہے۔ کاروبار وسیع ہو رہے ہیں۔ سکول کالج یونیورسٹیا ں بن رہی ہیں۔ ہسپتال صحت کے مراکز کی تعمیر ہے۔سڑکوں کواز سرِ نور ترتیب و تعمیر سے آراستہ کیا جارہا ہے۔نئے راستے تشکیل دیئے جارہے ہیں اور نئے راستے بنائے جا رہے ہیں۔ پراناپشاور تو پرانے لوگوں کے دلوں میں مقیم ہے مگر آنے والی نسل کا شہر یہ نیا پشاور ہے جو آہستہ رو سہی مگر نئی شکل و صورت سے آراستہ ہو رہاہے۔