کیا ڈیجیٹل (کرپٹو کرنسیاں) اچانک ایک دن ختم ہو جائیں گی؟ گذشتہ ایک سال میں کرپٹو کرنسی کی مارکیٹ کا حجم تقریباً 2 کھرب امریکی ڈالرز تک پہنچ چکا ہے اور تمام تر پابندیوں اور نگرانیوں سے قطع نظر کرپٹو کرنسی کی مارکیٹ میں ہر دن وسعت دیکھنے میں آ رہی ہے۔ کرپٹو کرنسی پر کسی بھی ملک‘ کمپنی یا مرکزی بینک کا کنٹرول نہیں ہوتا۔ مرکزیت کم کرنے کے نظریئے پر عمل پیرا کرپٹو کرنسی میں خرید و فروخت میں کسی بروکر کی ضرورت بھی نہیں ہوتی اور کوئی ادارہ اس کی تصدیق بھی نہیں کرتا۔ کمپیوٹرز کے ایک بہت بڑے نیٹ ورک‘ جن کے نوڈز (شاخیں) پوری دنیا میں ہیں‘ کی مدد سے رقم کی منتقلی سے متعلق معلومات کی حفاظت اور خفیہ طریقے سے نگرانی کی جاتی ہے۔ اس نظام میں لاکھوں ڈالرز گردش کر رہے ہوتے ہیں اور اس عمل پر نظر رکھنا حکومتوں‘ مرکزی بینکوں اور منتظم (ریگولیٹری) اداروں کیلئے ناممکن حد تک دشوار ہو جاتا ہے۔ ناقدین کے برعکس ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو کرپٹو کرنسی کو فروغ دینے کیلئے کوشاں ہیں اور انہیں اِس بات کا یقین ہے کہ اِس کا خاتمہ نہیں ہو گا۔ وہ کرپٹو کرنسی کو نہ صرف طویل المدتی منافع بخش سرمایہ کاری کے موقع کے طور پر دیکھتے ہیں بلکہ بین الاقوامی مالیاتی نظام میں بڑی تبدیلی یا متبادل کے طور پر بھی اپنا رہے ہیں۔کرپٹو کرنسیاں دنیا کو تبدیل کرنے والی ہیں جس طرح ایک وقت میں انٹرنیٹ نے سفر کا آغاز کیا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ ہماری روزمرہ زندگیوں کا حصہ بن جائے گا۔ صورتحال یہ ہے کہ دنیا بھر میں مرکزی بینکیں لاتعداد نوٹ شائع کرتی ہیں وہ کچھ ہی سالوں میں بے وقعت ہو جائیں گے۔ یہ نئی ٹیکنالوجی کے آنے کے بعد ان پرانے طریقوں کی موت کے مترداف ہو گا۔ اِس سلسلے میں سوشل میڈیا پر بھی گرما گرم بحث جاری ہے جہاں بحث میں حصہ لیتے ہوئے ایک صارف نے لکھا ہے کہ ’بٹ کوائن سب کچھ تبدیل کرنے والا ہے اور یہ ہمارے اچھے کیلئے ہی ہو گا۔‘ کچھ صارفین اِس قدر جذباتی ہیں کہ وہ اِس بات کی پیش گوئی کر رہے کہ کرپٹو کرنسیوں میں مقبول ترین بٹ کوائن اگلے دس برسوں میں دنیا کی واحد کرنسی ہو گی! درحقیقت دنیا کو ایک ایسے قانون کی ضرورت ہے جس کے ذریعے کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ان افراد کے نام اور پتہ بتائیں جو کرپٹو کرنسیوں میں کسی خاص حد سے زیادہ کا لین دین کرتے ہیں۔ کرپٹو کرنسیوں کا سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ یہ کسی بھی ملک کی مالیاتی خودمختاری کیلئے خطرہ بن سکتی ہیں بالخصوص پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کیلئے جس کا مالیاتی نظام (نظم وضبط) کمزور ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اگر کسی ملک کا مرکزی (سٹیٹ) بینک یہ نہیں جانتا کہ اُس کے ملک میں کتنا پیسہ ہے‘ کتنا پیسہ خرچ ہوا اور اسے کہاں منتقل کیا گیا ہے تو اس سے مالیاتی پالیسی اور افراط زر‘ سود کی شرح کی پیمائش متاثر یقینا ہو گی اور اس کے بہت زیادہ مضمرات پائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ حکومت کی مالیاتی پالیسیاں (منصوبہ بندیاں) بھی متاثر ہوں گی۔ کرپٹو کرنسیاں خوشنما خطرہ ہیں اور اِن کے آغاز ہی میں اگر اِن کی نگرانی اور نظم و ضبط کے قواعد وضع نہ کئے گئے تو مستقبل میں اِس پر قابو پانا ممکن نہیں رہے گا۔ مستقبل کے منظر نامے اور خطرے کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومتیں اپنی ڈیجیٹل کرنسیوں کو تشکیل دیں تاکہ یہ آزاد و خودمختار اور مارکیٹ میں زیرگردش کرپٹو کرنسیوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے قابل اور بطور متبادل قانونی طریقوں سے موجود ہوں۔ محققین کا خیال ہے کہ لوگوں کو کرپٹو کرنسی کے جعل سازوں سے بچانے اور اس بات کو یقینی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ڈیجیٹل کرنسی مارکیٹ کو منظم کیا جائے تاکہ کرپٹو کرنسی کو قانونی مقاصد کیلئے بھی استعمال کیا جا سکے کیونکہ کرپٹو کرنسی کا تصور بُرا نہیں لیکن اِس تصور کو عملی جامہ پہنانے کا طریقہئ کار مشکوک ہے۔