سکول۔ کورونا۔ ویکسین ۔۔۔۔۔۔

پڑھنے والے بچے ہر حال میں پڑھتے ہیں۔ لیکن اس کا کیا کریں کہ بعض بچوں کا تو سکول جانے کو جی ہی نہیں کررہا۔اصل میں ڈیڑھ سال کی مسلسل چھٹیوں نے ان کو آرام کا عادی کر دیا ہے۔پھر ان دنوں اگر سکول کھلے بھی تو کیا کھلے۔ پہلے عالمی وائرس نے جان نہ چھوڑی اور ماں باپ پریشان تھے۔ سکول اگر دو ایک ہفتہ کو کھل بھی جاتے تو انھیں ڈر رہتا۔ پھر سکول کھل جانے کے باوجود بعض والدین بچوں کو سکول بھیجنے کا خطرہ مول نہ لیتے۔ اب اگر جون کی اس کڑاکے کی گرمی میں سکول اور کالج پھر سے کھل گئے تو پھر بھی بعض والدین بچوں کو سکول نہیں بھیج رہے۔کیونکہ اب تک یہاں یہی شیڈول رہاہے کہ جون جولائی اگست کے تین مہینوں میں بچوں کی صحت کو سامنے رکھ کر سرکاری چھٹیاں دی جاتی تھیں۔ انھوں نے اگر بچوں کو کورونا سے بچایا تو اچھی بات ہے اور اب سخت گرمی کے دنوں میں اگر سکول بلا رہے ہیں تو یہ سوچنے کی بات ہے۔بچوں کا توکیا ذکر خود اساتذہ بھی سکول اور کالج جانے سے گریز پا ہیں۔ کیونکہ سال بھر کی جدائی بڑی بات ہے۔کالجوں کے سٹوڈنٹس بھی کہتے ہوئے سنے جارہے ہیں کہ اب تو ہم اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ نہ تو پڑھنے کو دل راغب ہوتا ہے اور نہ ہی کالج جانے کو طبیعت مائل ہو تی ہے۔اب کورونا کے اثرات تو جاتے جاتے جائیں گے۔ کیونکہ آتے وقت تو ان مضرِ صحت اثرات نے بہت جلدی کی۔ چین کے شہر دوہان سے وائرس نکلا اور پوری دنیا میں پھیل گیا۔ مگر ہماری ارضِ وطن پر باری تعالیٰ نے اپنا فضل و کرم کیا کہ یہاں وہ تباہ کاری نہ ہوئی۔مگر ہمارے پسِ دیوار تک کے ہمسایہ ملک میں جو تباہی سامنے آئی۔ باہر ممالک میں کورونا کے پھن کو کچل دیا گیا۔اگرکوئی ملک ہے تو وہاں اگرسو لوگ ہیں تو سو کے سو کو ویکسین لگی ہے۔ اب وہاں کورونا کامسئلہ نہیں رہا۔مگر ہمارے ہاں اب تک اس پر لے دے ہورہی ہے کہ ویکسین لگائی جائے کہ نہیں۔جہاں تک ویکسین کے بارے میں شکوک و شہبہا ت کی بات ہے وہ آہستہ آہستہ دور ہو رہے ہیں۔ پہلے تو پولیو کے قطروں کے بارے میں کیا کیا افواہیں زیرِ گردش رہی ہیں۔مگر پھر بعد میں سب کچھ اپنی موت آپ مر گیا۔اس طرح شہریوں کا جوق در جوق جیسے الیکشن میں ووٹ دینے آئے ہوں یوں رش بنا کر لائن میں ویکسین لگانے سے بھی باقیوں کے دلوں کو حوصلہ مل رہاہے۔اس پر ہمارے فیس بک کے انگریزی کالم نگار جاوید اقبال نے ایک خوبصورت مضمون باندھا ہے۔لہٰذا آہستہ آہستہ ویکسین کے بارے میں آگاہی کی مہم اپنا کام کر رہی ہے۔جب کتے کے کاٹنے کی ویکسین ایجاد نہ ہوئی تھی تو کتنے ہی لوگ کتوں کے کاٹ لینے سے موت کے منہ چلے گئے۔پھر جب لوگ ویکسین پر سمجھے تو خدا نہ کرے اب ایسا واقعہ ہو تو کتے کے کاٹنے پر عام آدمی بھی کہتا ہے کہ اس کو جلد ہسپتال لے جاؤ تاکہ اس کو ویکسین کا ٹیکہ لگے۔اس سے پہلے کہ کورونا اپنے کھیل کا انداز دوبارہ بدل لے اور جو صورتِ حال قدرے بہتر ہے ابتر ہوجائے  ویکسین کے لگانے کو روا سمجھ لیں۔ پولیو کے قطرے پینے سے کسی بچے پر کوئی مصیبت نہیں آئی۔ سو یہی معاملہ کورونا ویکسین کے ساتھ ہے۔ اب تو کروڑہا ڈالر کے خرچہ پر خود حکومت اپنے عوام کو ویکسین لگا رہی ہے۔ مگر ممکن ہے کہ آنے والے وقتوں میں کہیں کورونا کا انجکشن خود اپنی جیب سے بھاری رقم دے کر لگانا پڑے تو پھر لگ پتا جائے گا۔سو اب تو یہ مفت مل رہی ہے تو پھر اس سے انکارکیا معنی رکھتا ہے۔ہمارے ہاں تو جتنے منہ اتنی باتیں۔ بلکہ جتنے منہ اس سے دگنی اور پھر کہیں تگنی باتیں۔ یونان کی کہانیوں میں یہ بھی ہے کہ افواہ ایک جانور ہے جس کی لا تعداد زبانیں ہیں۔ جو اس جانور کے منہ سے نکل کر مختلف سمتوں میں لہرا رہی ہیں۔ یہ تو افواہوں کا دیس ہے۔ کسی نے کوئی بات کہہ دی تو اس کو بغیر تصدیق کے ہمارے بھائی لوگ آگے بڑھا دیتے ہیں۔ ایک اور افواہ جو سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی۔وٹس ایپ کے ایک وائس میسج پر کسی نے جو اپنے آپ کو واپڈا کاملازم بتلا رہاتھاپھیلا دی۔ کہا آٹھ تاریخ سے صوبہ بھر کے بجلی کے بٹن آف کر دیں گے۔ جب تک ہمارے مطالبات منظور نہیں ہوتے۔ دوسرے دن اخبارمیں اس کی تردید آگئی۔ ہم نہ تو غور کرتے ہیں نہ سوچتے ہیں۔