پشاور کہانی: گرمی کی لہر۔۔۔۔۔

 موسم گرما کی جاری لہر کے باعث معمولات زندگی متاثر ہو رہے ہیں لیکن یہ پہلا موقع نہیں کہ وادی پشاور (بشمول پشاور‘ چارسدہ‘ مردان‘ نوشہرہ‘ صوابی وغیرہ) میں درجہئ حرارت برداشت سے باہر ہو رہا ہے لیکن ہر سال گرمی میں اضافے کی بنیادی وجہ موسمیاتی تبدیلیاں ہیں‘ جو آبادی کے بڑھنے اور درختوں‘ سبزہ زاروں کی کمی کے باعث شدت اختیار کر رہی ہے۔ گرمی کا مقابلہ کرتے ہوئے انسانی جسم اندرونی طور پر ایک خاص درجہئ حرارت (37.5 ڈگری سینٹی گریڈ) برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور جب موسمی درجہئ حرارت سردی یا گرمی کے باعث جسمانی درجہئ حرارت برقرار رکھنے میں جسم کی مدد کی جا سکتی ہے جو باعث راحت بھی ہوتا ہے اور بصورت دیگر بے چینی بڑھتی ہے۔ چاہے کوئی شخص برفانی طوفان میں ہو یا گرمی کی لہر میں جسم اپنا درجہ حرارت برقرار رکھتا ہے لیکن جیسے جیسے گرمی بڑھتی ہے‘ جسم کو اپنا بنیادی درجہ حرارت کم رکھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ ان حالات میں ہمارا جسم جلد کے قریب واقع شریانوں کو کھول دیتا ہے تاکہ ہمیں پسینہ آئے اور جسم کا درجہ حرارت کم ہو جائے۔ پسینہ خشک ہو کر جلد سے خارج ہونے والی گرمی کو ڈرامائی حد تک بڑھا دیتا ہے۔ بظاہر یہ عمل سادہ لگ رہا ہے لیکن طبی نکتہئ نظر یہ جسم پر کافی دباؤ ڈالتا ہے یعنی جتنا زیادہ درجہ حرارت بڑھتا ہے اتنا ہی جسم پر دباؤ۔ یہ کھلی شریانیں بلڈ پریشر کم کر دیتی ہیں اور دل کو خون پہنچانے کیلئے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ کھلی شریانوں کے رسنے کی وجہ سے پاؤں میں سوجن اور گرمی دانوں پر خارش جیسی علامات پیدا ہو سکتی ہیں لیکن اگر بلڈ پریشر کافی کم ہو جائے تو جسم کے ان اعضا کو کم خون پہنچے گا جنہیں اس کی بہت ضرورت ہے اور دل کے دورے کا خدشہ بڑھ جائے گا۔ اس کے ساتھ پسینہ بہنے کی وجہ سے جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی واقع ہونے کی وجہ سے جسم میں ان کا توازن بدل جاتا ہے۔ ان علامات کے ساتھ کم فشارِ خون کی وجہ سے لو بھی لگ سکتی ہے جس کی وجہ سے سر چکرانا‘ بے ہوش ہونا‘ الجھن کا شکار ہونا‘ متلی آنا‘ پٹھوں میں کھچاؤ محسوس ہونا‘ سر درد‘ شدید پسینہ اور تھکاوٹ محسوس ہو سکتی ہے۔ لو لگنا خطرناک ہو سکتا ہے جس کیلئے طبی ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ متاثرہ شخص کو فوری طور پر کسی ٹھنڈی یا نسبتاً ٹھنڈی (سایہ دار) جگہ منتقل کیا جائے اور اِس حالت میں لٹایا جائے کہ اُس کے پاؤں بدن سے کچھ اور ہوں۔ متاثرہ شخص کو زیادہ مقدار میں پانی پلانے سے ری ہائیڈریشن کا عمل تیز ہو سکتا ہے۔ جلد کو ٹھنڈا کرنے سے راحت کا احساس اور پنکھے یا ائرکنڈیشن سے جسم کا درجہ حرارت معمول پر لایا جا سکتا ہے۔ لو لگنے والے شخص کی بغل اور گردن کے پاس آئس پیک بھی رکھے جا سکتے ہیں تاہم اگر وہ تیس منٹ کے اندر اندر بہتری محسوس نہ کرے تو اس کا مطلب ہے ان کو ہیٹ سٹروک ہو گیا ہے جو ایک طبی ہنگامی حالت ہے اور ایسی صورت میں متاثرہ شخص کو ہسپتال پہنچانا بہتر رہے گا۔ ہیٹ سٹروک کا شکار ہونے والے افراد کا گرمی لگنے کے باوجود پسینہ آنا بند ہو سکتا ہے۔ ان کے جسم کا درجہ حرارت چالیس ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہونے کے بعد وہ بے ہوش ہو سکتے ہیں یا انہیں دورے پڑ سکتے ہیں۔
صحت مند افراد عام سمجھ بوجھ استعمال کر کے گرمی کی لہر میں خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں لیکن کچھ لوگوں کو لو لگنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ زیادہ عمر کے لوگ یا دل کی بیماری جیسے امراض کا سامنا کرنے والے افراد کیلئے گرمی کی وجہ سے جسم پر پڑنے والے دباؤ سے نمٹنا مشکل ہو سکتا ہے۔ شوگر (ذیابطیس) کے پہلے اور دوسرے درجے کے مریضوں کے جسم میں تیزی سے پانی کی کمی کا شکار ہوتا ہے اور بیماری کی وجہ سے شریانیں اور پسینہ پیدا کرنے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔ یہ بات بھی اہم کردار ادا کرتی ہے کہ آپ کو سمجھ ہو کہ آپ کے جسم کا درجہ حرارت بہت بڑھ چکا ہے اور یہ کہ اس بارے میں آپ کو کچھ کرنا چاہئے۔ ہم اس بات کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیتے لیکن بچوں اور ذہنی امراض کے شکار افراد گرمی کی لہر کا زیادہ آسان شکار ہو سکتے ہیں۔ موسم گرما کا آغاز ہونے سے قبل ہی پشاور کے بازاروں میں ٹھنڈے مشروبات (گڑ‘ صندل اور گوندکتیرا کا شربت‘ لیموں پانی‘ شکنجبین‘ فالودہ‘ قلفی‘ کھیر وغیرہ) کی فروخت شروع ہو جاتی ہے جبکہ تربوز اور دیگر پھل اور اِن سے بنے عرقیات (جوسیز) کا استعمال بھی بڑھ جاتا ہے۔ اِن مشروبات کے ساتھ اسپغول‘ تخم ملنگا اور تخم ریحان کے اضافے سے اِن کی افادیت بڑھ جاتی ہے۔ ایک وقت تھا جب پشاور شہر کے حکیموں کی دکانوں پر رش رہتا تھا‘ اگرچہ قدرتی اجزأ اور جڑی بوٹیوں سے گرمی اور امراض کا علاج معالجے پہلے جیسی ترجیح نہیں رہا لیکن اِس کے باوجود روایتی مطب اور پنسار اپنے تجربے اور خدمات کو پھیلائے ہوئے ہیں اور اہل پشاور کی خدمت میں مصروف ہیں۔