امریکی انخلا ء کے بعد افغانستان میں چین بڑی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ اگرچہ امریکہ اور نیٹو کی جانب سے افغانستان سے گیارہ ستمبر تک یکطرفہ انخلا ء کے اعلان سے افغانستان میں بدامنی کے خطرات بڑھ گئے ہیں، چین نے افغانستان میں مفاہمت اور امن کے لئے اپنی کوششیں تیز کردی ہیں۔چین امریکہ کی طرح نہ افغانستان پر قبضہ جمانا چاہتا ہے اور نہ ا س کے اندرونی کشمکش میں فریق بننا اور اس پر اپنا نظام مسلط کرنا چاہتا ہے لیکن وہ یہاں انتشار اور ریاستی ناکامی برداشت نہیں کرسکتا‘نئی صورت حال میں چین افغانستان کے ساتھ سماجی، فوجی اور اقتصادی تعاون بڑھانے کے لئے کوشاں ہے۔ وہ افغانستان کے متعدد معدنی ذخائر اور کئی دیگر منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں افغانستان کو بھی شامل کرنا چاہتا ہے۔ اس کیلئے افغانستان میں امن درکار ہے۔ لیکن افغانستان بھی اگر چہ امریکہ اور ہندوستان سے زیادہ قریب ہے مگر اب بدلتے حالات میں خود کو چین کی طرف دیکھنے پر مجبور پاتا ہے۔چین افغانستان کی خودمختاری اور افغان عوام کے حق حکومت سازی کا احترام کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ افغان عوام اپنی آزاد مرضی سے اور بغیر کسی بیرونی دبا ؤ مداخلت کے اپنے مسائل پر امن مذاکرات کے ذریعے حل کرلیں۔ البتہ دوسرے ممالک امن عمل میں غیر جانبدار ثالث اور سہولت کار کا کردار ادا سکتے ہیں۔چین کے خیال میں افغانستان کے پڑوسی بھی افغان امن عمل کے اہم عامل اور متاثرہ فریق ہیں اور ان کے مفادات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے جو اقوام متحدہ اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسے علاقائی میکانزم کے ذریعے یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کے بقول چین افغانستان میں مختلف فریقوں کے مابین باہمی مذاکرات کو آسان بنانے اور امن لانے کے کسی بھی مخلصانہ عمل میں شامل ہونے کے لئے تیار ہے‘تین جون کو چین، افغانستان اور پاکستان کے سہ فریقی وزرائے خارجہ آن لائن مکالمے میں انہوں نے افغانستان میں امن اور مفاہمت کو آگے بڑھانے کے لئے پانچ تجاویز پیش کیں۔ اول یہ کہ افغان مذاکرات ”افغان سرکردگی اور افغان ملکیتی“ ہوں۔ دوم، بین الافغان مذاکرات جاری رکھے جائیں۔ سوم، طالبان کو سیاسی دھارے میں لایا جائے۔ چہارم، افغان مصالحتی عمل کو عالمی برادری اور خطے کے ممالک کا مکمل تعاون حاصل ہو اور پنجم یہ کہ چین، افغانستان اور پاکستان کے مابین مخلصانہ تعاون اور ارتباط یقینی بنایا جائے۔ چین افغان امن کیلئے پاکستان کے اہم کردار اور خدمات کا معترف ہے۔ اس کے افغانستان اور پاکستان دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور وہ ان کے مابین بداعتمادی ختم کرنے اور افغانستان میں امن لانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان غلط فہمیاں دور ہو جائیں اور وہ افغان امن عمل کی کامیابی کے لئے مربوط کوششیں شروع کریں۔ امید کی جانی چاہئے کہ وہ ایک طرف افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مصالحت اور دوسری جانب افغانستان و پاکستان کے درمیان غلط فہمیاں ختم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ تین جون کو پاک چین افغان وزرائے خارجہ کے ویڈیو اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی کہا کہ پاکستان، چین اور افغانستان کا امن اور خوشحالی ایک دوسرے سے منسلک ہے اور افغانستان میں امن سے خطے میں تجارتی سرگرمیاں بڑھیں گی۔چین، افغانستان اور پاکستان کے وزرائے خارجہ اس پر متفق تھے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا ء ذمہ دارانہ اور منظم ہونا چاہئے تاکہ افغانستان میں امن آئے اور دہشت گرد گروہ دوبارہ قدم نہ جما سکیں۔ تینوں وزرائے خارجہ مندرجہ ذیل آٹھ نکات پر بھی متفق ہوگئے۔ پہلا نکتہ یہ کہ افغانستان میں امن اور مفاہمت کا عمل جاری رکھا جائے، جنگ بندی کی جائے، طالبان کو سیاسی دھارے میں واپس لایا جائے اور خطے کے ممالک افغانستان میں امن عمل میں مدد دیں۔ دوسرا نکتہ یہ کہ تینوں ممالک کے درمیان اعتماد، تبادلے اور رابطے بڑھنے چاہئیں۔ تیسرا یہ کہ چین اور پاکستان افغانستان میں امن اور تعمیر نو کے لئے اپنی حمایت اور افغانستان کے ساتھ معاشی اور تجارت و تبادلے بڑھانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ چوتھا یہ کہ ”بیلٹ اینڈ روڈ”اقدام پر باہمی تعاون بڑھایا جائے۔ پانچواں یہ کہ روزگار، خوراک، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں سہ فریقی باہمی تعاون بڑھایا جائے۔ چھٹا نکتہ یہ کہ چین کوویڈ 19 سے نمٹنے میں افغانستان اور پاکستان کو مزید مدد فراہم کرے گا۔ ساتواں یہ کہ انسداد دہشت گردی اور سلامتی پر تعاون مضبوط کیا جائے اور مشرقی ترکستان اسلامی تحریک اور دیگر دہشت گرد قوتوں کے خلاف لڑائی تیز کی جائے۔ آٹھویں نکتہ یہ کہ سہ فریقی وزرائے خارجہ کے آن لائن مکالمے کو جلد از جلد بالمشافہ اجلاس میں تبدیل کیا جائے۔چین کے مطابق طالبان ایک حقیقت ہیں اور انہیں افغان مذاکرات، متوقع سمجھوتے اور مستقبل کے نظام حکومت میں شامل کئے بغیر افعانستان میں امن کا حصول مشکل ہے اس لئے طالبان کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیئے۔ برداشت، پرامن بقائے باہمی، مفاہمت اور معافی کے بغیر افغانستان میں امن نہیں آسکتا اور بالآخر سب افغان فریقوں کو یہی اختیار کرنے ہوں گے۔