مجھے تو آتش کا وہ شعر یاد آ رہاہے ”نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتش۔برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے“۔خدا جانے موصوف نے کس کیفیت اور کن احساسات کے تحت یہ شاعری کی۔ ممکن ہے کہ جب انھوں نے یہ شعر کہا ہو تب اسی طرح کی گرمی ہو جو آج کل خاص طور پر پشاور میں پڑ رہی ہے۔کبھی کا پارہ پینتالیس اور کبھی انچاس ہے۔موسم کا پارہ الگ اونچا جار ہا ہے اور اسلام آباد کا پارہ بھی ہائی ہے کہ وہاں جا کر ٹھنڈا ٹھار جوس کا گلاس پی کر گرمی کی شدت میں کمی کا احساس نہ ہو۔ پھر مزاجو ں میں تھوڑی گرمی چڑھ گئی ہے کہ ٹی وی پروگراموں میں بھی شرکاء کی دوسرے پر تھپڑوں سے گولہ باری ہے۔یاروں نے اس گرمی کا مذاق اڑانا شروع کر دیا ہے۔وہ وہ لطیفے آ رہے ہیں کہ گرمی میں کمی کا رجحان ہو الٹا گرمی زیادہ ہوئی جاتی ہے۔لگتا ہے کہ عالمی ریکارڈ بننے جا رہاہے۔چین اور روس میں تو سردی ہو پھر مائنس پچاس ہو جاتی ہے۔ چلو وہ تو برداشت ہو نے والی بات ہے۔مگر گرمی کا عالمی ریکارڈ پشاور میں نہ ہی بنے تو بہتر ہے کیونکہ پینتالیس کی گرمی میں لوگ بے ہوش ہو رہے ہیں تو انچاس پر ان کا کیا حال ہو رہا ہے۔پھر بچوں کی تو نکسیر پھوٹ نکلی۔ اس مہینے پہلی تاریخ سے گرما کے موسم نے جو اپنے گرز اٹھائے تو جو سامنے آیا اس کو لگا دیئے۔کوئی ٹھہر نہ سکا۔ لوگ بے ہوش ہونے لگے۔ سڑک کنارے ایک پرائیویٹ ہسپتال کے باہر گڑ کے شربت کی گاڑی کھڑی تھی۔میں بے حال ہو کر وہاں رک گیا۔ کہا جلدی سے ایک گلا س دو۔ تپتی ہوئی دوپہر کاعالم تھا۔ اتنے میں ایک نوجوان کو دو بندے اٹھاکر لائے۔پاس کھڑی چھوٹی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ڈال دیا۔میں نے سوچا چونکہ ہسپتال کے گیٹ پر کھڑے ہیں سو ہو سکتا ہے جرنیلی ہسپتال جانے کی ہدایت کی گئی ہو۔ دو چار بندے اور بھی اکٹھے ہوگئے۔ہم تو خیر نکل آئے۔مگر دوسرے دن جب اسی جگہ شربت کا جام پینے کھڑے ہونا پڑا تو پوچھاکل وہ جو مریض تھا اس کا مسئلہ کیا تھا۔ شربت والے نے برف توڑ کرپورے گلاس میں ڈالتے ہوئے جواب دیاکہ اس کو گرمی کے تاؤ نے مارا تھا۔اس پر پانی وانی چھڑکا تو وہ ٹھیک ہوگیا۔ اس غضب ناک گرمی میں تو بچوں اور عورتوں کو بہت برے دن دیکھنے پڑ رہے ہیں کیونکہ خواتین نے تو برقعے بھی پہن رکھے ہوتے ہیں اور نقاب بھی۔ پھر خواتین کے بازاروں میں ان کا رش بھی ہوتا ہے۔پچھلی سردی میں اتنی سردی ہوئی کہ ہم نے کہا توکیا اب پشاور میں برف گرے گی۔ پھراب کے گرمی میں پچاس کے قریب کے درجہ حرارت پر پہنچ کر سوچ ہے کہ تو کیا اس شہر میں کیا ہوگا۔اب اگر یہ حال ہے تو آئندہ دس بارہ سالوں کے بعد کی گرمی کا سٹیٹس کیا ہوگا۔ اس لئے ہم نے اس شئے پر قابو پانا ہے۔ یہ تو ہمارے اپنے کارنامے ہیں جن کاانجام بھگت رہے ہیں۔ آلودگی ہے اور حد سے زیادہ آلودگی ہے۔ پھر ہر طرح کی آلودگی ہے۔سو ایسے میں تو ایسا ہوگا۔گھر سے باہر نہ نکلیں تو کیا کریں۔ سودا سلف لانا ہوتا ہے۔ کام کاج پر جانا ہوتا ہے۔مگر گرمی کے گرہن مارے سورج میں جو پانچ گھنٹے رہے گھومناہوگا۔ موٹر سائیکل پر اگر ہیلمٹ نہ ہوتو ہیٹ سٹروک کا عین امکان ہے۔بائیک کے لوہے کے پر پرزوں کو ہاتھ لگاؤ تو یوں لگے جیسے کوئی سیخیں تبا تبا کر سزادینے کولگا رہاہے۔درودیوار جوش رہے ہیں۔ الماری ہے تو اس میں سے آگ نکل رہی ہے۔کمرے کے اندر جس چیزکو ہاتھ لگا کاٹنے کو دوڑتی ہے۔پھر ایسے میں جو ہوتا ہے۔واپڈا دفاتر کے باہر ویڈیو بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ جب گرڈ میں اضافی بجلی ہے تواس کے باوجود عوام کیوں محروم ہیں۔کہا گیا ہے تاروں کانظام اتنا پرانا اور ضعیف ہو چکا ہے کہ یہ تاریں بجلی کی روانی کو سہ نہیں پاتیں اور ٹرپ کر جاتی ہیں۔کمال بات ہے کہ کئی سال گزر گئے پچھلی حکومتوں کے دور سے یہی راگ سنتے آئے ہیں۔ مگر نہ تو انھوں نے تاروں کے نظام کودرست کیا اور نہ ہی دس سال گذر جانے کے بعداب نئی حکومتوں نے اس کا تکلف کیا کہ وہ بجلی کی روانی کو بحال رکھنے کی خاطر تاروں کے انتظام کو درست رکھیں۔دن کو بجلی گئی تو اب اسے کون لائے اور اگر آ گئی تو پھر پندرہ منٹ کے بعد دوبارہ گئی اور شام ڈھلے آئی۔ رات کواچانک گئی تو تھوڑی دیر کے بعد آنکھ کھلی اور ہاتھ کے پنکھے ڈھونڈتے رہے۔ہاتھ کے پنکھے تو سدا بہار چیز ہیں۔ کسی کی منت نہیں کرنا پڑتی اور نہ ہی اس کابل ادا کرنا پڑتا ہے۔پھرکمال یہ ہے کہ اس جون جولائی میں بجلی کے بل بھی زیادہ آتے ہیں۔ میٹر ریڈنگ کچھ ہوتی ہے اور ادائیگی کی رقم کچھ اور ہوتی ہے۔احتجاج کرو تو کہتے ہیں کہ اگلے بل میں سیٹ کردیں گے۔مزید کہنا ہوتا ہے کہ جون کامہینہ ہے ہمیں سال بھر کا حساب دینا ہوتا ہے۔ خدا جانے کون سچ کہتا ہے اور کون بہانے بازیاں کرتا ہے۔کون سا حساب ہے اور کس کو دینا ہوتا ہے۔جی بھر کے ستاتے ہیں۔دل مطمئن کر کے سزا دیتے ہیں۔ جہاں سے بجلی کا چرانا ظاہر ہو وہاں تو یہ لوڈ شیڈنگ کے محکمے والے ساتھ بھلے چنگے کو سزا دینا عین مناسب سمجھتے ہیں۔