ان دنوں تو آموں کا راج ہے۔ یہ جدا بات ہے کہ کسی کو میسر ہیں اور کسی کو نہیں۔ جس کو حاصل ہو سکتے ہیں ان میں سے اکثر کو اجازت نہیں کہ کھائیں۔ مگر پھر بھی کسی نہ کسی طرح یہ نعمت کھا ہی لیتے ہیں۔ بہانہ کر کے تو کبھی گھروالوں سے چھپ چھپا کرمعدے کی من آشا پوری کر لیتے ہیں۔ آم تو چھوڑ تربوز بھی انھوں نے نہیں کھانا جس کو شوگر ہے۔ مگر صاحب بھی تو بہت ہوشیار ہیں۔ کھائیں گے مگر گھر سے باہر۔ کسی ریڑھی والے کے پاس کھڑے ہو کرایک پلیٹ تربوز سے پچاس روپے میں نمک ڈال کر آنکھوں کو تر کر لیتے ہیں۔گھر پہنچو تو اگر دسترخوان پر آم بھی کسی ماہر قصائی کی کٹی ہوئی فنکارانہ بوٹیوں کی طرح پلیٹ میں سجے ہوں تو اس پلیٹ کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کریں۔تاکہ گھر والوں کے دلوں میں یہ بات پختہ ہو کہ آپ پرہیز میں بہت مضبوط ہیں۔ ہاں اگر گھر والوں کا دھیان کسی اور طرف ہو تو چپکے سے تربوزکی ایک آدھ ڈالی اٹھاکرفوراً سے پہلے جبڑوں میں دور ہی سے گرا دیں۔ اندر اندر پیس ڈالیں اوپر مطمئن و شاداں رہیں۔ چہرہ کو سنجیدہ کر لیں۔یوں کہ پرہیز کے معاملے میں لوگ الٹا آپ کی مثالیں دیں۔ ہمارے پیارے جن کو آم نہیں کھانا دوستوں کی محفل میں لسی کے ساتھ آموں کے مرتبہ و مقام پر ہاتھ ڈالتے ہیں۔ آم تو بیچارہ جو اسے کھائے لذت فراہم کرتا ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ لذت کے نام پر کوئی خود اپنے دانتوں سے اپنی قبر کریدے اور کھودے۔یہاں پشاور کے شاعراختر سیماب کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں۔”اختر اپنا تو عقیدہ ہے بقولِ غالب۔آم میٹھے ہوں بہت سارے ہوں اور ٹھنڈے ہوں“ آپ انصاف کریں تربوز پہ تو نمک بھی ڈالا جاتا ہے۔ جو بلڈ پریشر کیلئے ہر گز قابلِ قبول نہیں۔ تو پھر کیا کھایاجائے۔ کمال ہے کہ نوجوانوں پر تو کوئی پابندی نہیں۔ مگر ہم جیسے گذری عمر کے بنی آدم کیلئے تمام پابندیاں بنائی گئی ہیں۔آم حضرتِ غالب کو بہت پسند تھے۔ہم تو کسی کو آم کھاتے دیکھتے ہیں تو افسوس نہیں ہوتا۔ کیونکہ ہمیں آم کاکھانا اس وقت قابلِ قبول ہے جب کوئی اپنے معصوم ہاتھوں سے چھیل کر ڈلیاں بنا کر کانٹے کے ساتھ پلیٹ اور وہ بھی بڑی سی ہو اس میں ڈال کر دے۔وگرنہ تو ہم ان آموں کو چھیلنے میں خود کو ملوث نہیں کرناچاہتے۔کیونکہ ہم نے زرد دستانے نہیں پہنے جوہمارے ہاتھوں پر سے جوں مہندی آموں کا کھانا ثابت ہو جائے گا۔اس لئے خواہ مخواہ اپنے آپ کو گھروالوں کے سامنے بے نقاب کیوں کریں۔ کہیں کپڑوں پر کوئی ایک زرد داغ لگ گیا تو گھر پہنچ کر کس کس کو جواب دیں گے کہ ڈاکٹر کی ہدایت کے برخلاف قدم کیوں اٹھایا۔ہاں کہیں راستے میں گڑ کے شربت والی ہتھ ریڑھی نظر آئی تو چیل کی طرح اس جھپٹنا اور ایک جام کو من میں نذرِ آتش کرنا برا نہیں۔ بلکہ عین درست ہوگا کہ اس گرمی میں ایک جلتی ہوئی انگارہ آگ پر ٹھنڈی تاثیر والا برف کا فالودہ نما گلاس انڈیل دیا جائے۔شہریوں کو آم تربوز تکے کباب اور اوجھڑی پانچے یہ بیماریوں کوتیز طرار کرنے والی چیزیں کھاتے دیکھتے ہیں تو آنکھیں پریشان ہو جاتی ہیں۔کیونکہ کولیسٹرول بھی ان میں ہے اور گلوکوز بھی ان میں اور نمک بھی ہے۔سب لذتیں ہیں۔ جو جوان لوگوں کیلئے تو باعثِ تشویش نہیں۔ مگر ہم جیسوں کیلئے جوانی کو یاد کرنے کا بہانہ ضرور ہے۔ہم سال بھر سے اسحاق وردگ کی آفر کو قبول نہیں کر پا رہے۔ پھر ان کی یہ پیشکش محدود مدت کیلئے بھی نہیں۔مگر ہم ایک وجہ سے کباب کھانے کی یہ آفر قبول نہیں کرتے۔اصل میں ڈاکٹر صاحب کی آفر بڑی شخصیات کیلئے ہے۔ ہمیں کیوں اس فہرست میں ڈالا۔حالانکہ کوئی کہے تو یہ کہ مجھے اس لسٹ سے کیوں نکالا۔پھر ان کی یہ دعوت ہر دو اصناف کی بڑی شخصیات کیلئے ہے۔شوگر والے تو کہتے ہیں کہ آم ہوں میٹھے ہوں اور بہت ہوں۔ آم کیوں ہوں پھر میٹھے کیوں ہو اور اس پر ستم یہ کہ بہت کیوں ہوں۔غالب کے دورمیں کسی کو شوگر کے بارے میں جانکاری حاصل نہ تھی۔ جس نے جو کھایا جب کھایا جب جی چاہااجل کے جھولے میں ہمیشہ کو سو گئے۔ مگر اب تو شوگر کے مریض جیسے غالب کے دور میں زندہ ہیں۔اب تو چاول بھی شوگر والوں کو منع ہیں۔ مگر کسی شادی میں خوانچہ کی غوری میں سجے ہوئے نظر آجائیں۔تو جیب میں سے انسولین کی بھری ہوئی سوئی نکالو اور اپنے پیٹ میں گھونپ دو۔جیسے سونے کی چھری ہو کہ خوبصورت نظر آئے تو اس وقت کچھ نہ سمجھتے ہوئے الٹا اپنے پیٹ ہی میں جھونک ڈالو۔