تحریک انصاف حکومت جس آب و تاب اور عوام کو ریلیف دینے کے دعوؤں کے ساتھ حکومت میں آئی تھی اس کے پیش کردہ سابقہ 2 بجٹ ان دعوؤں کے بالکل برعکس نظر آئے لیکن آئندہ مالی سال (2021-22ء) کا بجٹ بہت مختلف ہے اور اگرچہ بجٹ کو انقلابی تو قرار نہیں دیا جا سکتا مگر یہ درست سمت میں ایک قدم ضرور ہے۔ یہی پاکستان کو چاہئے۔ خصوصاً ٹیکس حکام (بیوروکریسی) کے اختیارات میں کمی اور صنعتوں کو بحالی کیلئے دیا جانے والا ریلیف نہایت ہی اہم ہے اور اِنہیں ”بجٹ کا نچوڑ“ قرار دینا چاہئے۔ وفاقی وزیر خزانہ ود ہولڈنگ ٹیکس اور دیگر ٹیکس مراعات کے ساتھ حکومت پر تنقید کرنے والے افراد کا منہ بند کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں مگر کیا آئندہ مالی سال کا بجٹ تحریک انصاف کے خراب امیج کو بہتر بنا سکے گا؟ اِس سوال کا جواب بجٹ پر ثابت قدمی سے عمل درآمد میں پنہاں ہے۔آئندہ مالی سال کے بجٹ میں جی ڈی پی ترقی کا ہدف قریب پانچ فیصد (4.8 فیصد) رکھا گیا ہے جبکہ رواں مالی سال (2020-21ء) میں جی ڈی پی کا ہدف 2.1 فیصد تھا تاہم عبوری اعدادوشمار کے مطابق جی ڈی پی 3.49فیصد رہنے کی پیشگوئی کی گئی ہے اور حکومت کو توقع ہے کہ زرعی پیداوار میں 3.5 فیصد‘ صنعتی پیداوار میں 6.5 فیصد اور خدمات کے شعبے میں 4.7 فیصد ترقی حاصل ہوگی۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ کا مجموعی حجم 8 ہزار 487ارب روپے رواں مالی سال کے بجٹ کا حجم 7ہزار 136ارب روپے تھا اور یوں گزشتہ مالی سال کے مقابلے آئندہ بجٹ کا حجم میں 19فیصد زیادہ ہے۔ بجٹ پر اثرانداز ہونے والے محرکات میں حکومت کی آمدنی بھی شامل ہوتی ہے جس سے متعلق اگر توقعات پوری نہ ہوں تو پورے کا پورا بجٹ ’دھرے کا دھرا‘ رہ جاتا ہے۔ آئندہ مالی سال میں آمدن کے حوالے سے حکومت کو توقع (ہدف) ہے کہ مجموعی طور پر 6ہزار 573 ارب روپے وصول ہوں گے جو رواں مالی سال (2020-21ء) کے ہدف سے 20 فیصد زائد ہے۔ حکومتی آمدنی میں ٹیکس وصولی (ایف بی آر) کا ہدف 5ہزار 829ارب روپے ہے جو موجودہ مالی سال سے 17فیصد زائد ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ایف بی آر کا ادارہ ٹیکس وصولی کے پہلے ہدف کو حاصل نہ کرسکا تو اب آئندہ مالی سال میں کیسے سترہ فیصد زائد ٹیکس اکٹھا کرے گا! بجٹ میں حکومت کی غیر ٹیکس آمدنی کو 2ہزار 80ارب روپے رکھا گیا ہے جو رواں مالی سال سے 29فیصد زائد اور ناقابل فہم ہے۔ ایک طرف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کی خوشخبری دی گئی ہے لیکن دوسری طرف بجٹ میں پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی سے 610 ارب روپے کا ہدف رکھا گیا جبکہ گزشتہ مالی سال یہ لیوی 450ارب روپے تھی!بجٹ میں جاری اخراجات کا تخمینہ 6ہزار 346ارب روپے لگایا گیا ہے جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں 19فیصد زیادہ ہے۔ اخراجات میں سب سے بڑی ادائیگی قرضوں پر لئے جانے والے سود کی ہے۔ آئندہ مالی سال کے دوران قرضوں پر صرف سود کی ادائیگی کیلئے 2ہزار 946ارب روپے کا تخمینہ ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری ملازمین کی پنشن کیلئے 480ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ مالیاتی خسارے کا تخمینہ 3ہزار 420ارب روپے رکھا گیا ہے جو جی ڈی پی کا 6.3فیصد جبکہ رواں مالی سال میں مالیاتی خسارے کا ہدف 3ہزار 195ارب روپے یعنی جی ڈی پی کا 7فیصد ہے۔نئے مالی سال کے بجٹ کا نمایاں پہلو ’ترقیاتی بجٹ‘ بھی ہے جس سے تعمیراتی شعبے میں سرگرمیاں بڑھنے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کیلئے مجموعی طور پر 2ہزار 102ارب روپے مختص ہیں جس میں سے وفاقی حکومت 900ارب روپے اور صوبے 1202ارب روپے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کریں گے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ حکومت نے ٹیکسوں میں کمی سے متعلق کاروباری طبقات کے دیرینہ مطالبات تسلیم کئے ہیں جس میں ٹیکس حکام کے اختیارات کو کم کرتے ہوئے ٹیکس نظام کو ہراساں کرنے کے عمل سے پاک کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ ٹیکس دہندگان کا نظام پر اعتماد بڑھے۔ اس مقصد کے لئے مجوزہ ٹیکس پالیسی میں ٹیکس گزاروں کی نشاندہی‘ ٹیکس نیٹ میں اضافے‘ ٹیکس استثنٰی اور مراعات سے متعلق شقوں کے بتدریج خاتمے کا اعلان کیا گیا ہے۔ خود تشخیصی ٹیکس سکیم کو متعارف کروایا جارہا ہے اور ایف بی آر کے اختیار کو ختم کرتے ہوئے فائل کردہ ٹیکس ریٹرن کو ہی اسسمنٹ آرڈر تسلیم کرلیا جائے گا۔ خود تشخیصی ٹیکس سکیم کے آڈٹ کیلئے چناؤ ایک خودکار رسک بیسڈ طریقہ کار کے ذریعے کیا جائے گا جبکہ انکم ٹیکس حکام سے آڈٹ کا اختیار لیتے ہوئے تھرڈ پارٹی آڈٹ کرایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ٹیکس معلومات کو چھپانے پر مجرمانہ کاروائی کی جائے گی۔ جو ایف بی آر افسر ٹیکس گزاروں کو ہراساں کرے گا اس کے خلاف بھی کاروائی ہوگی۔ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کے بوجھ میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے اور نواز لیگ کے دور میں ٹیکس پر دی گئی چھوٹ بھی واپس نہیں لی گئی۔ پاکستانی معیشت میں زراعت کو ریڑھ کی ہڈی جیسی کلیدی حیثیت حاصل ہے‘ جس کیلئے بجٹ میں بارہ ارب روپے رکھے گئے ہیں جن میں ٹڈی دل سے بچاؤ‘ فوڈ سیکیورٹی‘ چاول‘ گندم‘ کپاس‘ گنے اور دالوں کی پیداوار میں اضافے‘ زیتون کی کاشت اور نہروں کی مرمت وغیرہ جیسے منصوبے شامل ہیں۔ زرعی شعبے کے لئے محض بارہ ارب روپے ناکافی ہیں‘ جو کم سے کم پچاس ارب روپے ہونا چاہئے۔ حکومت ایک طرف خود اعتراف کرتی ہے کہ پاکستان کو غذائی شعبہ میں قلت کا سامنا ہے جس کی وجہ سے اجناس کی درآمدات پر قیمتی زرِمبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔