اردو کا مقدمہ۔۔۔۔۔

یہ معاملہ الجھن والا اور طویل بحث پر مبنی ہے۔یعنی کہ اردو پاکستان کی سرکاری زبان کیوں نہیں۔حالانکہ آئینِ پاکستان کی شق نمبر 251 ہے کہ آئندہ پندرہ سالوں میں پاکستان کی قومی زبان کو 1988ء تک سرکاری زبان بنایا جائے۔ پندرہ سالوں کا ٹائم اس لئے دیا کہ ترجمہ کے حوالے سے مشکلات درپیش تھیں۔ اسی لئے بعد میں مقتدرہ قومی زبان کاادارہ اسلام آباد میں وجود میں لایا گیا۔ جس نے ہر طرح کی سرکاری اصطلاحات کا ترجمہ کر دیا۔ یہ ادارہ اپنے حصہ کا کام کر کے فارغ ہوگیا۔ وہ پندرہ سال گذر بھی گئے۔ پھر ان سالوں کو گذرے آج اوپر تینتیس سال اور بیت گئے۔ مگر اردو ہمارے ہاں سرکاری زبان کا درجہ حاصل نہ کر سکی۔اس سلسلے میں سرکاری طور پر بہت کوششیں ہوئیں۔ اب وزیراعظم عمران خان صاحب نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ جتنی بھی سرکاری تقریبات ہوں گی وہ اردو زبان میں ہوں گی۔اسی طرح اگر وہ کھلم کھلا اور ایگزیکٹیو آرڈ کے ساتھ دو ٹوک انداز میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کا اعلان کردیں تووہ دن حقیقی خوشخبری کا دن ہوگا۔پھر نظام ِ تعلیم بھی اردو میں ہو جائے۔پھر وہ دن پاکستان کی ترقی کے آغاز کا پہلا دن ہوگا۔ ورنہ تو ہم بیٹھے رہیں گے انگریزی میزکے کنارے اور مکھیاں مارتے رہیں گے۔ہمارے ہاں تو نہ سائنسدان پیدا ہوں گے اور نہ کارآمد سیاستدانوں کی آبیاری ہوگی۔میں خود سول سیکرٹریٹ میں ایک زمانے میں ایس اینڈ جی اے ڈی میں سیکشن آفیسر اردو عبدالوہاب صاحب کے ساتھ کلرک تھا۔پھر سینئر منسٹر جو دو بار ا س عہدے پر رہے ان کا زمانہ بھی دیکھا۔ انھوں نے اپنے ماتحت محکموں میں اردو زبان میں خط و کتابت کو رواج دیا۔مگر اس سے زیادہ اور کچھ نہ ہو سکا۔وہ اپنے دوبارکے دورانیہ میں اردوکو پورے طورپر رواج نہ دے سکے۔وہ گئے تو انگریزی دوبارہ اکیلی شاہی ملکہ بن گئی۔یعنی وزیر وزراء کو افسر شاہی چلاتی ہے۔بیوروکریسی نے چاہا تو اب تک اردو کو سرکاری زبان بننے سے روک رکھا ہے۔اس میں عدالیت عالیہ اگر مداخلت کرے اور جناب بھٹو کے زمانے میں بنے اس آئین کی اردو شق کو نافذ کر دے تو کیا مزا ہو۔قائدِ اعظم رواں دواں انگریزی بولتے تھے۔ اردو بولنا ان کے لئے گراں تھا۔ مگر انھوں نے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا۔ مشرقی پاکستان یعنی آج کے بنگلہ دیش میں یہ اعلان کیا۔وہاں ڈھاکہ میں 21مارچ1948ء کو ان کے الفاظ ملاحظہ ہوں جو ہو بہو نقل کئے دیتا ہوں ”میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی اور صرف اردو، اور اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں ہوگی“۔نیشنل لینگوئج اتھارٹی (مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد) نے سالوں پہلے جب وہ تمام حوالہ شدہ ٹاسک انجام دے چکے اور اردو کو سرکاری مقام نہ دلا سکے۔ہمارے ہاں ہر معمولی سی بات پر آئین ِ پاکستان کی بات ہوتی ہے۔مگر کسی کا دھیان اس طرف نہیں جاتا کہ اسی آئین میں شق 251بھی تو ہے۔پاکستان کی حقیقی خوشحالی اردو زبان کے سرکاری اور تعلیمی حوالے سے نفاذکے بعد ہے۔ہمارے پشاور کے ایک ڈاکٹر صاحب چین سے ڈاکٹری کر کے آئے تو میں نے اپنی معلومات کے لئے ان سے مختلف سوالات کئے۔ ایک سوال یہ بھی تھا کہ وہاں آپ کو ڈاکٹری کس زبان میں پڑھائی گئی۔ انھوں نے کہاچینی زبان میں۔میں بہت حیران ہوا۔چین تو دوسرے نمبر پر سپر پاور ہے اور مضبوط معیشت ہے۔ایٹم بم ہے۔جانے کیا کیا ہے جس کا صرف ہم لوگ خیال ہی کرسکتے ہیں۔ہم لوگ جو صرف خیال ہی کر سکتے ہیں تو اس لئے کہ ہم جو تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ انگریزی زبان میں ہوتی ہے۔حتیٰ کہ اقوامِ متحدہ کے رول اصول میں یہ ہے کہ بچے کو پرائمری تک کی تعلیم اس کی مادری زبان میں دی جائے۔مگر ہمارے ہاں اس پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں تعلیم کے میدان میں پشتو مضمون تو ہے۔پھر اب تو ہندکو زبان میں بھی یہی خوشخبری سن رہے ہیں۔مگر وہ دن کب ہوگا جب ہمارا مکمل تعلیم کانظام چین، کوریا، فرانس، ایران، جاپان، روس، جرمنی اوردیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح اپنی قومی زبان میں ہوگا۔ کیا ان ممالک میں سائنسدان نہیں ہیں کیونکہ ا ن کا انتظام انگریزی میں نہیں۔کیا یہ لوگ بم نہیں بنا رہے کیا یہ دنیا کی مضبوط معیشت نہیں۔میرے اپنے دو لڑکے ایم اے انگریزی ہیں۔اگر میں نے انگریزی کی حمایت کرناہوتی میں بیٹوں کو سامنے رکھ کرجانتے بوجھتے آنکھیں بند کرلیتا۔ مگر وسیع تر مفاد انگریزی زبان میں نہیں۔ہماری اپنی قومی زبان ہماری کامیابی کا راستہ ہے۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ میں خود انگریزی بولنے میں گونگا ہوں۔ جیسی تیسی ایسی ویسی مگر منہ ٹیڑھا کر کے اور بغیر انگریزی لب ولہجے کے کسی طرح بول لیتے ہیں۔پھر وہ جو انگریزی بولتے ہیں ہمارے جیسے کالے انگریز جب گھرجاتے ہیں تو اپنی مادری زبان میں گفتگو کرتے ہیں۔