حج 2021ء

 کورونا وبا کے سبب رواں برس بھی حج کی ادائیگی محدود رکھی جا رہی ہے اور بیرون ملک سے زائرین کو حج کرنے کی اجازت نہیں دی گئی البتہ سعودی عرب میں مقیم دیگر ممالک کے باشندے حج کی سعادت حاصل کر سکیں گے۔ یہ اعلان سعودی وزارت خارجہ کے ٹوئیٹر اکاؤنٹ  سے (12جون کی شام) جاری ہوا‘ جو وزارت ِحج و عمرہ کی طرف سے تھا۔ بیان میں کہا گیا کہ رواں سال (1442ہجری) مجموعی طور پر 60ہزار سعودی عرب کے شہریوں بشمول سعودی عرب میں رہائش پذیر غیرسعودی افراد کو حج ادا کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ وزارت ِحج و عمرہ نے یہ فیصلہ عالمی سطح پر کورونا وبا کی صورتحال کے پیش نظر کیا ہے اور لوگوں کی حفاظت اور صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس وقت کچھ احتیاطی اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔ ”حج کی سعادت حاصل کرنے کے خواہش مند شخص کا کسی بھی لاعلاج مرض میں مبتلا نہ ہونا ضروری ہے جبکہ اُس کی عمر اٹھارہ سے پینسٹھ سال کے درمیان ہونی چاہئے اور وہ سعودی عرب کے ویکسی نیشن اقدامات کے مطابق لازماً کورونا کی ویکسین لگوا چکا ہو۔“ کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ سلطنت کی جانب سے حج اور عمرے کی ادائیگی کے لئے آنے والوں کو بہترین سہولیات فراہم کرنے کی مسلسل کوشش کی بنیاد پر کیا گیا ہے جبکہ انسانی صحت اور حفاظت کو اولین ترجیح دی گئی ہے۔‘واضح رہے 23 مئی کو سعودی عرب نے سال 2021ء کے حج کے لئے کورونا وبا کے پیشِ نظر احتیاطی تدابیر اور شرائط کا اعلان کیا تھا۔ سعودی وزارت ِصحت کی جانب سے 9 صفحات پر مشتمل دستاویز میں حج کے حوالے سے مختلف شرائط کا اعلان کیا گیا تھا۔ ستاون اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم‘آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (OIC)‘ نے سعودی عرب کے اس فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے ٹوئیٹر اکاؤنٹ سے کہا ہے کہ ”اُو آئی سی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر یوسف العثیمین نے سعودی عرب کی وزارت حج کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔“ ہدایات کے مطابق صرف سعودی عرب میں مقیم افراد اور سعودی شہریوں کو حج کی اجازت ہوگی اور ان کی تعداد ساٹھ ہزار سے زیادہ نہیں ہوگی۔ حج کرنے والے افراد کی عمر اٹھارہ سے پینسٹھ سال کے درمیان ہونی چاہئے۔ حج ادا کرنے کے لئے کورونا کی ویکسین لگوانا بھی لازمی ہے۔ حج ادا کرنے والوں کو کوئی سنگین بیماری یا صحت کا مسئلہ نہیں ہونا چاہئے۔ خیال رہے کہ عام حالات میں ہر سال پوری دنیا سے لاکھوں مسلمان حج کرتے ہیں۔ کورونا وبا سے قبل سالانہ پچیس لاکھ افراد حج کے مقدس فریضے کی ادائیگی کے لئے مکہ اور مدینہ حاضر ہوتے جبکہ پورا سال عمرے کی ادائیگی بھی جاری رہتی‘ جس کی بدولت سعودی عرب کی معیشت کو سالانہ بارہ ارب ڈالر کا براہ راست جبکہ مجموعی طور پر تیئس ارب ڈالر سالانہ کی آمدنی ہوتی تھی۔حج کے لئے سعودی عرب جانے والے قیام و طعام‘ سعودی عرب کے اندر سفر‘ دیگر عمومی ضروریات اور تحفے تحائف کی خریداری پر فراخدالی سے خرچ کرتے ہیں‘ جو سعودی معیشت کا بڑا حصہ ہے۔ مکہ چیمبر اور کامرس کے اندازوں کے مطابق بیرون ملک سے آنے والے مسلمانوں کو حج پر چارہزارچھ سو ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں جبکہ سعودی عرب کے مقامی حجاج کرام پر فی حاجی پندرہ سو ڈالر خرچ آتا ہے۔ عمومی حالات میں سب سے زیادہ عازمین حج (2 لاکھ 20 ہزار) کا تعلق انڈونیشیا سے ہوتا۔