ان دنوں کی گرمی سب کو محسوس ہو رہی ہے مگر کیا جانور وں کو اس کااحساس نہیں ہورہا ہوگا۔ہر ذی روح جو سانس لیتی ہے۔وہ روح تکلیف محسوس کرتی ہے۔مگر یہ ہم ہیں کہ انسان ہو کر حیوانوں پر گذرنے والی موسم کی تلخی کو محسوس نہیں کرتے۔ جانور اگر انسان نہیں تو ان میں روح موجودہے۔ان کو بھی ہماری طرح کسی بھی وجہ سے تکلیف ضرور ہوتی ہے۔مگر ہمیں احساس نہیں۔ان گرمی کے سخت دنوں میں ہم میں وہ بہت کم ہیں جو چھتوں پر چڑھ کر پرندوں کے لئے پانی کی ایک سینک رکھ دیں تاکہ اڑتے پرندے نیچے اتر کر پانی پی سکیں۔ ہمیں ان کی پیاس کا بھی خیال نہیں ہے کیونکہ تمام پرندے جسمانی لحاظ سے بہت گرم ہوتے ہیں۔ہر وقت اڑتے پھرتے ہیں۔ ان کے بازو حرکت میں رہتے ہیں۔اس لئے انھیں پیاس بھی زیادہ لگتی ہے۔الٹا ہم جانوروں کو خاص ان گرم دنوں میں بھی ستا ستاکر مارتے ہیں۔کتا گرمی کے دنوں میں مرن حال ہوتاہے۔ اسے خوراک تو مل ہی جاتی ہے۔جیسے تیسے سہی گند گریل جو بھی ہو۔مگر اس کو پانی آسانی سے دستیاب نہیں ہوتا کیونکہ خوراک سطح زمین کے اوپر ہوتی ہے جبکہ پانی ہمیشہ نیچے کی طرف موجود ہوتا ہے۔ نالیاں اگر قریب ہوں تو اس کا کام چل جاتا ہے۔مگر کبھی وہ پانی کے لئے ترستا ہے کیونکہ بعض علاقوں میں نیچے اترنا اس کے بس میں نہیں ہوتا۔ پرندے تو اپنے پروں کے سہارے کہیں بھی اتر کر اپنی پیاس بجھا لیتے ہیں۔پھر ہمارے ہاں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو گدھوں گھوڑوں سے کام تو لیتے ہیں مگر ان کو سخت تپش کے ماحول میں زیادہ مصروف رکھتے ہیں۔بار برداری اور سامان اٹھانا،لے جانا،رکھنا اور پھر نئے سرے سے گدھا گاڑی کو بھرنا اور مارکیٹوں سے چھوٹے بازاروں میں دکانوں پر مال اتارنے کے لئے رخ کرنا۔جو محسوسات ہمارے ہیں ان میں سے کم ان جانوروں کے بھی ہوتے ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ ہم بولتے ہیں چیختے ہیں اور درد کااظہار کرتے ہیں۔ مگر یہ مخلوق تو بیچاری بول بھی نہیں پاتی کہ سخت گرمی لگ رہی ہے۔ ایسے میں وہ لوگ جو ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف نہیں سمجھتے وہ کتنے بے درد ہیں۔گدھا گاڑی میں اوپر نیچے سامان کے بھرے ڈبے رکھے جاتے ہیں۔پھر یہ سامان اتنا زیادہ مقدار میں ہوتا ہے کہ خود گاڑی الٹی ہونے لگتی ہے۔ایسے میں اس حیوان کو اپنے جسم کا زیادہ زور لگاناپڑتا ہے۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ گدھے گھوڑے کی برداشت سے زیادہ اس پر مال و اسباب لادا جاتا ہے۔تانگے میں ضرورت سے زیادہ افراد بٹھائے جاتے ہیں۔پھر اوپر سے گدھا ہو یا گھوڑا کھینچ کر اس کی کمر پر چابک مارتے ہیں کہ زیادہ تیز بھاگے۔ایسے میں وہ دردکی شدت سے بلبلا اٹھتا ہے۔ اس سلسلے میں سرکار کی طرف سے جانوروں کو ستانے کی روک تھام کا محکمہ بھی موجودہے۔مگر زندگی بھر ہم نے کہیں نہیں دیکھا کہ کسی نے اس قسم کی گاڑیوں کو روکا ہو اور گاڑی بان کو اٹھا کر تھانے میں بند کیا ہو۔جانور ہماری ذمہ داری ہیں۔باہر کے ملکوں میں انسان تو چھوڑ کتوں کی اتنی عزت و قدر ہے کہ آسٹریلیا کے شہرسڈنی میں سرکاری اہل کار گھر گھر گھومتے ہیں۔ پالتو کتوں اور دیگر جانوروں،بلیوں وغیرہ کی خوراک اگر ٹھیک طریقے سے نہ دی جارہی ہو تو وہ مالک کو تو نہیں اٹھاتے بلکہ کتوں کو لے جاتے ہیں کیونکہ سرکاری سنٹرز پر جانوروں کی خوراک کے انتظام کے خاطر خواہ انتظامات ہوتے ہیں۔ مالک روتا ہوا رہ جاتا ہے۔مگر سرکاری لوگ کتے کی خوراک سے مطمئن نہیں ہوتے۔ ہمارے ہاں تو انسانوں کی خورا ک ہی نہیں۔ پھر گدھوں گھوڑوں کی وجہ سے کمائی تو کی جاتی ہے۔لیکن ان کا اس طرح خیال نہیں رکھا جاتا جس طرح کہ خیال رکھنے کاحق ہے۔حالانکہ یہ جانوران کی فیملی کو کما کر دیتا ہے۔مگر یہ لوگ اس کی اس حد تک بھی پروا ہ نہیں کرتے۔ کرتے ہوں گے ہیں ایسے لوگ۔مگر عام طورسے دیکھنے میں آیا ہے۔ جانور کا تو کیا کہنا انسان کی یہاں کوئی وقعت نہیں۔ جانوروں کوان کے بچوں کے حوالے سے ہم اکثر دکھ میں مبتلا رکھتے ہیں۔گھرکے کتے ہوں یا گھوڑے اور گدھے۔ ہم ان کے بچوں کو جب ناکارہ سمجھتے ہیں تو اٹھاکردوسروں کو دے دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ گائے نے اگر مؤنث کو جنم دیا تو ہم اس کو پالیں گے تاکہ بڑی ہو کر ہمیں گھر یا دکان کے لئے دودھ دے گی۔مگر کہیں گائے میں سے بچھڑے نے جنم لیا تو ہم اس کو کسی اور کے حوالے کردیتے ہیں۔کیونکہ وہ بچھڑاتو اپنی ماں کا دودھ پیئے گا۔سو وہ دودھ ان کے حساب سے کمائی نہ ہوئی اور زمین پر گرگیا۔دودھ کم اس لئے بکے گاکہ اس میں سے بہت حصہ تو ماں کے تھن سے بچھڑا پی جائے گا۔ سو اس موقع پر بچھڑے کو بیچ دیتے ہیں۔ پھر وہی بچھڑا ذبح کر کے غیر قانونی طور پر فروخت ہوتا ہے۔