ایک قطرہ خون۔۔۔۔۔

یہاں تو ہم پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ کیونکہ یہ جنسِ نایاب بنتا جا رہاہے۔دنیا بھر میں پانی کی کمی واقع ہو رہی ہے۔ایسے میں ہمارے ہاں خون کی کیا اہمیت ہوگی جب تھیلی سیمیا کے مریض بچوں کو نہ ملے۔تھیلی سیمیا بچوں میں ہوتا ہے۔یہ بڑوں کی بیماری نہیں ہے۔پاکستان میں خون چڑھانے  کے ادارے بہت ہیں۔پھر پشاور میں بھی نمایاں طور پر کافی بلڈ بینک کام کر رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی خون کے انتقال کے معاملے میں ہمارے ہاں بہت کمی ہے۔خون کے نہ ملنے کی وجہ یہی ہے کہ عام پبلک کو خون کے بطورِ عطیہ دینے کی اہمیت کا چنداں احساس نہیں۔ بھلے چنگے ٹھیک ٹھاک انسان ہوں گے پوچھو تو ایک بار بھی خون نہیں دیا ہوگا۔ کم از کم دو سال میں ایک بار تو کوئی اپنا لہو مریضوں کیلئے عطیہ کرے۔ہماری آبادی کانصف تو خواتین ہیں۔اس نصف میں بہت کم عورتیں بلڈ دیتی ہیں۔ لیکن ان کو چھوڑ کر اگر باقی پچاس فیصد مردوں میں سے گذری ہوئی عمر کے لوگوں کو ایک طرف کر دیں۔ پھر بچوں کوبھی اس میں شمار نہ کریں۔ اگر نوجوانوں میں سے نصف کو چھوڑ کر دوسرے آدھے میں سے پچاس فی صد کو اس شمار اس قطار میں رکھیں۔ وہ اگر ہر چار ماہ کے بعد نہ سہی سال میں ایک بار بھی خون دیں تو بہت بڑی بات ہوگی۔مگر ہمارے ہاں شعور کی بہت زیادہ کمی ہے۔اگر ہمارے ہاں تعلیم کی شرح زیادہ ہو تو ہم خون کا عطیہ دینے کیوں کترائیں۔ اصل میں خون نہ دینے کی اصل وجہ خوف ہے۔اگراپنے جسم پر معمولی سا کٹ لگ جائے تو اپنے جسم سے لہو کی سرخ دھاری نکلتے دیکھ کر ہم گھبرا جاتے ہیں۔.پھر کہاں خون کی بوتل دینا۔ پھر بوتل کسی شربت کی بوتل بڑی بوتل کا نام تو نہیں۔یہ پلاسٹک کی چھوٹی تھیلی ہوتی ہے۔یہ تو پان سو سی سی کا پیک ہوتا ہے۔جس میں خون کو خراب ہونے سے بچانے کیلئے پہلے سے چوتھا حصہ محلول پڑا ہوتاہے۔اس ایک پنٹ سے چار مریض بچوں کی جان بھی بچا ئی جا سکتی ہے۔ثواب کا ثواب ہے اور فرض کا ادا کرنا الگ ہے۔ چودہ جون کو خون دینے والوں کا عالمی دن منایا گیا۔ 
پشاور میں بارہ تاریخ کو بھی ریلیاں نکلیں۔ کیونکہ کوروناکی تباہ کاریوں کی وجہ سے احتیاط کے طور پر ان ریلیوں کو تو اول سڑکوں پر آنے کی اجازت نہ تھی۔مگر بہت کم شہریوں کے ساتھ خون کے عطیہ کی آگاہی مہم چلائی گئی۔پھر چودہ جون کو بھی مختلف تنظیموں نے آگاہی مہم کو آگے بڑھانے کیلئے پروگرامات کئے۔ فاطمید فاؤنڈیشن میں ایک تقریب ہوئی جہاں خون کا عطیہ دینے والوں کو شیلڈز بطور حوصلہ افزائی دی گئیں۔پچھلے سال لاک ڈاؤن میں عوام گھروں میں قید ہو کر رہ گئے تھے۔ سو انتقال خون کے ادارے ویران پڑے تھے۔۔اگرچہ کہ وہاں بچے خون کے عطیہ کرنے والوں کے انتظار میں تھے مگر کوئی گھر سے نکل کر سڑک پر نہیں آرہاتھا۔ان دنوں ان بچوں کو ناقابلِ یقین نقصان پہنچا۔یہ بچوں کی بیماری تک ہوتا ہے کہ کسی بچے کو کتنے عرصے بعد خون چڑھایا جاتا ہے۔کسی کو تین مہینے کے بعد خون رگوں میں انڈیلا جاتا ہے۔جب جب یہ تھیلی سیمیا کے بچے بڑے ہوتے جاتے ہیں اتنا اتنا ان کے اندر خون کی طلب زیادہ ہو تی جاتی ہے۔پھر ا ن کے مسائل بھی زیادہ ہو تے جاتے ہیں۔ان کو کبھی بیماری زیادہ ہو جانے سے دو ماہ بعد پھر ایک ماہ بعد حتیٰ کہ ہفتے بعد بھی خون چڑھایا جاتا ہے۔آپ خود سوچیں اتنا خون کہا ں سے آئے گاکہ کسی بچے کو سات دنوں کے بعد خون کی ایک بوتل چڑھائی جائے۔بچے کو اس کے والدین اس وقت ہسپتال لاتے ہیں جب وہ بچہ کھیلناکودنا چھوڑ دیتا ہے۔ سست پڑجاتا ہے او رکونوں میں جا جا کر بیٹھارہتا ہے۔ اس پر ان کے ماں باپ سمجھ جاتے ہیں کہ اب بچے کو خون کی ضرورت ہے۔ جب بچے کو خون کی تھیلی چڑھتی ہے تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ کھیلنے لگتی ہے اور خود وہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔جب اس موقع پر خون عطیہ کرنے والے کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا تو والدین کے بارے میں سوچیں کہ وہ خوشی کے مارے اپنے آپ میں پھولے نہیں سماتے۔کسی کے شاختی کارڈ میں جہاں ہر چیز لکھی ہوتی ہے وہاں یہ بھی لکھا ہونا چاہئے کہ اس کا خون کا گروپ کون سا ہے۔تاکہ کسی حادثے کے وقت اس کو ہنگامی حالت میں خون چڑھایا جا سکے۔کسی بھی تحریک میں نوجوان اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگراس سلسلے میں ہمارے کالج یونیورسٹی کے اور عام معاشرے کے نوجوان آگے آئیں تو ہمارے ہاں خون کے عطیا ت کی کمی نہ ہوگی۔