کورونا وبا سے نمٹنے کیلئے پشاور کی ضلعی اِنتظامیہ (ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن) کی جانب سے 2 الگ الگ خصوصی اعلانات (بتاریخ چودہ جون) لائق توجہ ہیں جن کے مطابق سرکاری دفاتر سے مختلف خدمات (جائیداد کی منتقلی‘ فرد نمبر‘ اسلحہ لائسنس کا اجرأ یا تجدید‘ بعداز ملازمت مراعات (پینشن) بنولینٹ فنڈ اور دیگر خدمات صرف اُسی صورت فراہم کی جائیں گی جبکہ درخواست گزار کے پاس کورونا ویکسین لگوانے کی سند موجود ہو۔ دوسرے اعلامیے میں حیات آباد اور کوہاٹ روڈ کی صنعتی بستیوں کے منتظمین (منیجرز) کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ تمام ملازمین بشمول صنعتی مزدوروں کی کورونا ویکسینیشن کا عمل مکمل کروائیں جبکہ ویکسینیشن سے انکار کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اعلامیے میں وضاحت کی گئی ہے کہ صرف ویکسینیشن کا عمل ہی ’معمول کے مطابق زندگی بسر کرنے کا طریقہ ہے‘ اِس لئے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کو تعاون کرتے ہوئے ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہئے۔“
زندگی کا حسن ہی ’احساس ِذمہ داری‘ ہے جس کے مظاہرے سے کسی قوم (معاشرے) کی تہذیب کا اندازہ ہوتا ہے۔ خوش آئند ہے کہ کورونا وبا کے پھیلنے پر قابو پانے کی کوششیں کامیاب ہو رہی ہیں۔ 15 جون کے روز متعلقہ نگران وفاقی ادارے (نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر) کی جانب سے جاری ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق ”پندرہ فروری کے بعد سے پہلی مرتبہ ملک بھر میں 1000 سے کم نئے کورونا کیسیز سامنے آئے ہیں۔“ خیبرپختونخوا کہ جہاں کورونا متاثرین اور ہر دن متاثر ہونے والے مریضوں کی تعداد پورے ملک میں سب سے زیادہ ہوا کرتی تھی‘ اب صوبہ سندھ سرفہرست ہے۔ اگرچہ خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں عمومی مشاہدہ یہی ہے کہ لوگ چہرہ ڈھانپنے کیلئے ماسک کے استعمال‘ سماجی دوری برقرار رکھنے اور بازار رات آٹھ بجے بند کرنے سے متعلق تین ہدایات پر خاطرخواہ سنجیدگی سے عمل نہیں کر رہے لیکن اِس کے باوجود کورونا وبا کے پھیلاؤ میں کمی آئی ہے تو اِس کی بنیادی وجہ موسم کی شدت ہے۔ خیبرپختونخوا اور پنجاب کے میدانی علاقوں میں گرمی کی شدت کے باعث کورونا وبا کا باعث بننے والا جرثومہ ہوا اور اشیاء کی سطح پر زیادہ دیر زندہ نہیں رہتا۔کورونا وبا سے پیدا ہونے والی طبی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے 9 جون کے روز وفاقی ادارے نے ایک اعلامیہ جاری کیا جس کے خیبرپختونخوا میں عملی اطلاق کیلئے ’صوبائی محکمہئ داخلہ و قبائلی امور‘ نے اعلامیہ 14 جون کو جاری کیا جس میں پندرہ جون سے صوبے میں ’طبی ہنگامی حالت‘ کے نفاذ کا اعلان بھی شامل تھا۔ یہ اعلامیہ خیبرپختونخوا وبائی امراض کے کنٹرول و ہنگامی حالات میں امدادی کاروائیوں سے متعلق 2020ء کے ایک قانون کی تین شقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جاری کیا گیا ہے جس کے تحت کاروباری و سماجی تقاریب و اجتماعات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جبکہ کام کاج (روزگار) کی جگہوں پر بھی احتیاطی تدابیر (SOPs) پر ’سختی‘ سے عمل درآمد کروایا جائے گا۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ملک بھر میں ضلعی انتظامیہ کو ملنے والے اختیارات میں شامل ہے کہ بنیادی اشیائے ضروریہ کی فروخت کے مراکز جن میں علاج معالجے کے مراکز‘ ادویات کی دکانیں‘ ویکسینیشن مراکز‘ تندور‘ دودھ فروخت کرنے والے‘ ہوٹل‘ ریسٹورنٹس وغیرہ شامل ہیں کی کشادگی پر پابندیوں کا اطلاق نہیں ہوگا لیکن اشیائے خوردونوش کی گھروں تک فراہمی (ہوم ڈلیوری) رات بارہ بجے جاری رکھی جائے گی۔ اِسی طرح موبائل فون نیٹ ورک‘ کال سنٹرز‘ پیٹرول پمپ‘ زرعی ضروریات فروخت کرنے والے ادارے اور مشینری‘ ورکشاپیں حسب ضرورت اوقات میں کھلی رکھی جا سکتی ہیں۔ جنرل و کریانہ سٹورز‘ گوشت‘ مرغیاں‘ انڈے‘ بیکریاں‘ پھل‘ سبزی فروخت کرنے کی دکانیں آٹھ بجے تک کھلی رکھی جا سکتی ہیں۔ ہدایات کے مطابق شادی بیاہ یا دیگر تقاریب کا انعقاد کھلی جگہوں پر کیا جائے گا جہاں زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سو افراد تقریب کا حصہ ہوں۔کورونا وبا کے پھیلنے کی رفتار اگرچہ کچھ کم ہوئی ہے لیکن یہ اِس وبا کا پھیلنا ختم نہیں ہوا اور یہی وہ نکتہ ہے جسے ذہن میں رکھتے ہوئے ’کورونا احتیاطی تدابیر‘ پر اِس کی روح کے مطابق عمل ہونا چاہئے۔ پشاور کی ضلعی انتظامیہ اور صوبائی محکمہئ داخلہ کو ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ میں ہونے والی کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینا چاہئے جن کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی سطح پر واضح ہدایات جاری ہیں کہ اِن میں مجموعی گنجائش کے 70 فیصد مسافروں کو سوار کیا جائے لیکن اِن ہدایات پر نہ تو اندرون شہر اور نہ ہی بین الصوبائی و بین الاضلاعی پبلک ٹرانسپورٹ راہداریوں پر عمل کیا جاتا ہے۔ ٹرانسپورٹرز نے کورونا ایس او پیز کے بہانے کرایوں کی شرح میں تو اضافہ کیا ہے لیکن مسافروں کی تعداد کم نہیں کی بلکہ ماضی کی طرح آج بھی مسافر بسوں‘ منی وینز میں گنجائش سے زیادہ مسافروں کو سوار کیا جاتا ہے۔ ہدایات جاری کرنے والے وفاقی اور صوبائی محکموں کو چاہئے کہ اِن پر بہرصورت عمل درآمد بھی یقینی بنائیں کیونکہ اگر عمل نہیں ہوگا تو صرف ہدایات و احکامات جاری کرنے سے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ احساس ذمہ داری اگر عوام کیلئے ضروری ہے تو یہی تبدیلی فیصلہ سازی اور قوانین و قواعد کے اطلاق میں بھی دکھائی دینی چاہئے۔