سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ٹریفک حجم کے لحاظ سے صوبہ خیبرپختونخوا میں سب سے مصروف شاہراہ پشاور کو نوشہرہ سے ملاتی ہے اس شاہراہ کو گرانڈ ٹرنک روڈ کا درجہ سولہویں صدی میں شہنشاہ ہند شیر شاہ سوری نے دیا تھا عام زبان میں جی ٹی روڈ کہلائی جاتی ہے۔ حقیقت میں تو اس شاہراہ کی لمبائی پورے ہندوستان تک پھیلی ہوئی ہے چونکہ شہنشاہ شیر شاہ سوری کی حکمرانی پورے ہندوستان پر چھائی ہوئی تھی اسلئے اس نے پشاور سے لیکر کلکتہ(مغربی بنگال) تک اس شاہراہ کی تعمیر کروائی جس سے اس کی مملکت کے ایک سرے سے دوسرے تک سفر کی سہولت رعایا کو میسر ہوگئی۔14اگست1947ء پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد باقی ماندہ ملک کیلئے سفر کرنے کیلئے پشاور کی ٹریفک اسی شاہراہ یعنی جی ٹی روڈ کو استعمال کرتی رہی تاہم چونکہ جی ٹی روڈ سنگل رویہ تھی اور ٹریفک کے حجم میں اضافہ ہوتا جارہا تھا تو محسوس کیا گیا کہ کم از کم پشاور سے نوشہرہ تک شاہراہ کو دو رویہ کر دیا جائے۔1977ء میں جنرل ضیاء الحق کے مارش لاء کے نفاذ کے بعد اس وقت کے شمال مغربی صوبہ سرحد کی کمان لیفٹیننٹ جنرل فضل حق نے سنبھالی تاہم سنگل رویہ ہونے کی وجہ سے پشاور نوشہرہ روڈ پر ٹریفک کی روانی میں مشکلات کا سامنا جاری رہا۔ آخر کار اسی کے عشرے میں جنر ل فضل حق نے ایک اہم قدم اٹھایا اور پشاور تا نوشہرہ روڈ دو رویہ کر دیا گیا۔ چونکہ مارشل لاء کے دور میں اسی سڑک کی تعمیر ہوئی تھی اسلئے میٹریل کے استعمال اور انجینئرنگ سپروژن بین الاقوامی سٹینڈرڈ پر اترتی تھی تعمیر کے دوران کئی بار جنرل فضل حق سڑک پر کام کی نوعیت دیکھنے خود جاتے تھے وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ اہم ترین شاہراہ پر کام ہونے کی وجہ سے ٹریفک میں خلل پڑ جانے سے جو عام لوگوں کو تکلیف محسوس ہو رہی تھی کم سے وقت میں تعمیر مکمل کی جائے‘ دوریہ روڈ کے مکمل ہونے کے بعد جب ٹریفک کیلئے کھول دیا گیا تو اسی نئی سہولت کو عوام نے تہہ دل سے خوش آمدید کہا تھا سڑک نہ صرف زیادہ چوڑی ہوگئی تھی بلکہ سطح اتنی ہموار تھی کہ گاڑی چلانے والے کو محسوس ہوتاکہ وہ کسی ہوائی اڈے کے رن وے کا استعمال کر رہا ہے دوریہ سڑک میں تعمیر کے علاوہ مستقبل کیلئے سڑک کو اضافی چوڑا کرنے کی گنجائش رکھی گئی تھی میریڈیم(دوسڑکوں کے درمیان خالی جگہ) اتنا چوڑا تھا کہ ایک اضافی لین تعمیر ہو سکتی تھی مین روڈ کے دونوں اطراف میں بھی اتنا رقبہ خالی رکھا گیا تھا کہ مستقبل میں روڈ کو چوڑا کرنے کی گنجائش باقی رہے یہ تو تھا پشاور نوشہرہ روڈ کا حال1982ء کا‘ آج 2021ء میں اگر اسی شاہراہ کا جائزہ لیا جائے تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ بدلتے وقت اور حالات میں اس اہم ترین شاہراہ کا کوئی پرسان حال نہیں۔پشاور اسلام آباد موٹر وے کی تعمیر کے بعد جی ٹی روڈ کی دیکھ بھال کو نظر انداز کردیاگیا ہے پشاور نوشہرہ دورویہ روڈ بننے کو چار دہائیاں بیت گئی ہیں اسی عرصہ میں موٹر گاڑیوں کے حجم میں سینکڑوں گنا اضافہ ہوگیا ہے علاوہ ازیں سڑک کی دونوں اطراف اتنی زیادہ تعمیرات ہوگئی ہیں کہ خالی میدان نظر ہی نہیں آتا ساتھ ہی چالیس سال میں انسانی آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جس کا اثر جی ٹی روڈ کے اطراف پر بھی نمایاں دکھائی دیتا ہے موجودہ سڑک پر مال بردار ٹرک‘ آئل ٹینکر‘ چالیس فٹ لمبے ٹریلر‘ مسافر بسیں‘ لوڈر موٹر کاریں‘ موٹر سائیکل ایک ساتھ چلتے دکھائی دیتے ہیں رفتار کا تعین سڑک پر چلنے والا سب سے بڑا ٹرک کرتا ہے جو عام طور40 سے 50 میل فی گھنٹہ ہوتی ہے اورتنگ سڑک کے پیش نظر اوورٹیک کی بھی گنجائش نہیں ہوتی نوشہرہ چھاؤنی میں ریلوے لائن موجود ہے جو نوشہرہ ریلوے سٹیشن کو مردان سے ملاتی ہے ضلع کچہری کے قریب یہ ریلوے لائن جی ٹی روڈ کے اوپر سے گزرتی ہے۔ نام تو لیول کراسنگ ہے لیکن حقیقت میں عدم توجہی کی وجہ سے ریلوے لائن سڑک سے اوپر اُبھر آئی ہے۔بہ الفاظ دیگر یہ آہنی ریلوے لائن ٹائر برسٹر کا کام کرنے لگی ہے خیبرپختونخوا کی معروف ترین پشاور نوشہرہ شاہراہ کو آج کی ٹریفک کے استعمال کے قابل بنانے کیلئے فوری اقدام کرنے کی ضرورت ہے موجودہ دورویہ شاہراہ میں دو دو اضافی لین تعمیر کی جائیں جی ٹی روڈ کے اطراف میں سرکاری زمین پر جو غیر قانونی تعمیرات کی گئی ہیں انہیں فوراً مسمار کیا جائے۔نوشہرہ چھاؤنی کے عین بیچ میں جو ریلوے لائن گزر رہی ہے‘ وہاں اور ہیڈ فلائی اوورتعمیر کیا جائے چونکہ سینئر حکومتی حکام پشاور سے اسلام آباد جانے کیلئے موٹر وے کی سہولت سے مستفید ہوتے ہیں انہیں جی ٹی روڈ پر ٹریفک کی زبوں حالی کا خیال نہیں آتا جوکہ ایک المیہ ہے۔