کسی بھی جمہوری نظام میں ریڑھ کی ہڈی وہاں کا انتخابی نظام ہوتا ہے جس کے صاف و شفاف اور آزادانہ ہونے کیلئے وقتاً فوقتاً اصلاحات کی ضرورت رہتی ہے۔ انتخابی عمل میں اصلاحات کے بعد اصلاحات کی ضرورت اِس وجہ سے رہتی ہے کہ عوام کے حق رائے دہی کے ساتھ انتخابات کی ساکھ کو برقرار رکھا جا سکے اور اِسی مقصد سے موجودہ وفاقی حکومت نے بھی متعدد اصلاحات متعارف کروائی ہیں جن میں سے 28 سے متعلق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور توجہ دلائی ہے کہ ”حال ہی میں قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے مجوزہ الیکشنز ایکٹ ترمیمی بل 2020ء کی بعض شقیں آئین پاکستان سے متصادم ہیں۔“ الیکشن کمیشن کی جانب سے قانون سازی کے خلاف باقاعدہ ردعمل تحریری شکل میں اعلامیے کی صورت جاری ہوا ہے۔ یہ اعلامیہ 10جون 2021ء کو مذکورہ ترمیمی قانون کے حوالے سے ہے جس کے بارے میں کمیشن کا اجلاس بھی طلب کیا گیا تاکہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی زیر صدارت اجلاس میں الیکشن کمیشن کے اراکین‘ سیکرٹری الیکشن کمیشن اور دیگر سینیئر اہلکار اپنی اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔ الیکشن کمیشن کے بیان میں کہا گیا کہ اجلاس میں مذکورہ بل کی ترامیم اور ان سے ہونے والی ممکنہ تبدیلیوں پرغور وخوض ہو گا جبکہ مذکورہ ترامیم کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے اپنے مؤقف سے پہلے ہی وزارت پارلیمانی امور کی وساطت سے قومی اسمبلی کی متعلقہ قائمہ کمیٹی کو آگاہ کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کو اِس بات پر تشویش ہے کہ مذکورہ ترامیم پر اُس کے مؤقف کو متعلقہ قائمہ کمیٹی میں زیر بحث نہیں لایا گیا۔ اگر ایسا ہوا ہے تو اِس سے اصلاحات کا عمل جامع انداز میں مکمل نہیں ہوگا اور اصلاحات کے بعد بھی اصلاحات کی گنجائش باقی رہے گی۔ تعجب خیز ہے کہ انتخابی ترمیمی بل 2020ء میں بعض ترامیم کو الیکشن کمیشن آئین پاکستان سے متصادم سمجھتا ہے‘ جس میں سرفہرست انتخابی فہرستوں کی تیاری اور ان پر نظر ثانی کے اختیارات ہیں۔ اِن اختیارات میں ’نادرا‘ کو شامل کرنے پر الیکشن کمیشن کو شدید تحفظات ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ اہل رائے دہندگان سے متعلق انتخابی فہرستیں صرف اور صرف اُس کی صوابدید پر ہونی چاہیئں اِس سلسلے میں آئین پاکستان کی شق نمبر 219 کا حوالہ دیا جاتا ہے جس کے تحت الیکشن کمیشن کے بنیادی فرائض میں شامل ہے کہ وہ انتخابی فہرستوں کی تیاری کے عمل کی نگرانی کرے۔ اسی طرح آئین کی شق 222کے تحت کمیشن کے اختیارات کو نہ تو ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ مذکورہ ترمیمی بل کے ذریعے متعلقہ دفعات کو حذف کر دیا گیا ہے جس سے انتخابی فہرستوں کی نظرثانی کا عمل الیکشن کمیشن کیلئے ناممکن ہوجائے گا۔ مجوزہ ترمیمی بل کی سترہویں شق کے تحت حلقہ بندیاں آبادی کی بجائے ووٹرز کی بنیاد پرکرنے کا کہا گیا ہے جبکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل اکیاون کے تحت قومی اسمبلی میں نشستوں کو آبادی کی بنیاد پر مختص کیا جاتا ہے۔انتخابی ایکٹ 2017ء کے سیکشن 122میں مجوزہ ترمیم میں سینیٹ کے الیکشن میں ووٹنگ کوخفیہ کے بجائے اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کا کہا گیا ہے جو سپریم کورٹ آف پاکستان کی رائے کے مطابق صدارتی ریفرنس سے مطابقت نہیں رکھتا۔ آئی ووٹنگ سسٹم میں خامیوں کی نشان دہی الیکشن کمیشن کے حالیہ اجلاس میں کی گئی۔ اِسی طرح ”آئی ووٹنگ“ برائے سمندر پار پاکستانی اور الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے امور بھی زیر بحث آئے ہیں۔ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) نے نادرا کے تیار کردہ آئی ووٹنگ سسٹم کی تھرڈ پارٹی آڈٹ کرایا اور اس کی رپورٹ الیکشن کمیشن کو پیش کر دی گئی۔ الیکشن کمیشن کی ایک آڈٹ رپورٹ کے مطابق ”آئی (الیکٹرانک) ووٹنگ سسٹم“ میں مختلف خامیوں کی نشان دہی کی گئی جن کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے جبکہ آڈٹ رپورٹ میں آئی ووٹنگ سسٹم کو استعمال نہ کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ مذکورہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اورآئی ووٹنگ کے حوالے سے سات جون کو الیکشن کمیشن کے نمائندوں سے وفاقی وزرأ کی ایک ملاقات بھی ہوئی۔ جس میں وزیر سائنس وٹیکنالوجی نے بتایا کہ وزارت سائنس وٹیکنالوجی میں تیار کی گئی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا ماڈل جولائی کے آخر میں الیکشن کمیشن کے سامنے پیش کیا جائے گا تاہم اس ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ الیکشن کمیشن دو بین الاقوامی کمپنیوں کی تیار کی گئی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا تجرباتی استعمال کر چکا ہے۔ تحریک انصاف کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں اور بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ کا حق انتخابی اصلاحات و ترجیحات میں سرفہرست ہیں اور اِن دونوں اہداف کو حاصل کرنے کیلئے ہر اُس مرحلے سے گزرا جا رہا ہے جو آئندہ انتخابات کی شفافیت کو عملاً ممکن بنانے کیلئے ضروری ہے۔ اِس سلسلے میں کہا جا رہا ہے کہ آئندہ ضمنی انتخابات میں الیکٹرانک مشینیں ہی استعمال ہوں گی۔ وفاقی کابینہ نے بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا عملی مظاہرہ (ڈیمو) دیکھنے کی درخواست کر رکھی ہے جس سے متعلق تفصیلات فراہم کر دی گئی ہیں‘ اِ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ ”ای مشینیں بنانے والی کمپنیوں اور کامسیٹس کی ٹیکنالوجی کمیشن کے چھتیس نکاتی ایجنڈے کے مطابق ہے لہٰذا الیکشن کمیشن کی خواہشات کے مطابق ٹیکنالوجی آچکی ہے اور اُمید ہے کہ آئندہ ضمنی و عام انتخابات میں کلی طور پر الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں استعمال کی جائیں گی۔ اگر الیکشن کمیشن اُور وفاقی حکومت کے درمیان افہام و تفہیم سے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ٹیکنالوجی) کے استعمال پر اتفاق ہوا تو دوسرے مرحلے میں ’اِی ووٹنگ‘ کی راہ میں حائل رکاوٹیں (الیکشن کمیشن کے تحفظات) بھی دور ہوتے چلے جائیں گے جس سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں اپنے حق رائے دہی کے ذریعے شرکت کرنے کا موقع مل جائے گا۔