نیٹو، چین اور روس۔۔۔۔۔

معاہدہ شمالی اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) کے رہنماؤں نے پہلی مرتبہ چین کو نیٹو اتحاد کی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیا ہے اور روس کے جارحانہ اقدامات اور اس سے درپیش خطرات اور چین سے درپیش چیلنجوں سے مل کر نمٹنے کا عزم ظاہر کردیا ہے۔چودہ جون کو امریکہ سمیت نیٹو کے تیس رکن ممالک کے سربراہ اجلاس کے 79 نکاتی اعلامیہ میں چین سے لے کر روس، ایران سے لے کر افغانستان اور ماحولیاتی تبدیلی سے لے کر خلاء تک کے امور پر بات کی گئی ہے۔اعلامیہ میں چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت اور جدت، جوہری وار ہیڈ والے ہتھیاروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ، جدید ترین وارہیڈ ترسیلی نظام کا بندوبست، عوامی طورپر اعلان کردہ ملٹری۔سول فیوژن سٹریٹجی اور روس کے ساتھ اس شعبے میں اس کے تعاون پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا گیا کہ چین کے مقاصد، خواہشات، جارحانہ رویہ، علانیہ عزائم اور ہٹ دھرمی نے قانون پر مبنی عالمی نظام اور نیٹو اتحاد کی سلامتی کیلئے چیلنجز پیدا کر دئیے ہیں۔اعلامیے میں روس کی بعض فوجی سرگرمیوں کو”جارحانہ“قرار دیا گیا اور نیٹو اتحاد میں شامل ملکوں کی سرحدوں پر روس کی جنگی کاروائیوں اور روسی طیاروں کی جانب سے ان ملکوں کی فضائی حدود کی بار بار خلاف ورزی پر تنقید کی گئی۔سربراہی کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینس سٹولٹن برگ نے کہا کہ یورپ اور شمالی امریکہ کو روس اور چین جیسی آمرانہ حکومتوں کے خلاف متحد ہوجانا چاہئے۔ انہوں نے روس پر نیٹو اتحاد میں شامل ملکوں کے انتخابی عمل میں مداخلت کی کوششوں، سیاسی اور معاشی دباؤ میں اضافے، ڈس انفارمیشن کی مہمات اور سائبر حملے کرنے کا الزام لگایا۔ ان کے بقول سرد جنگ کے خاتمے کے بعد روس اور نیٹو ممالک کے تعلقات نچلی ترین سطح پر ہیں۔روس نے جدید ترین انٹرمیڈیٹ رینج میزائل بھی تیار کیے ہیں جو ایٹمی وار ہیڈ لے سکتے ہیں جس سے یورپ زیادہ خطرے میں ہے۔ نیٹو سربراہ کے بقول ہم نے صرف 18 ماہ قبل چین کے حوالے سے سخت الفاظ ادا کرنا شروع کیے ہیں لیکن ہم چین کے ساتھ نئی سرد جنگ میں داخل ہو رہے اور نہ ہی چین ہمارا دشمن ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے چین اور روس پر نیٹو کو کمزور کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ ان سے محاذ آرائی نہیں چاہتا لیکن تخریب کارانہ سرگرمیوں کا ضرور جواب دے گا۔ادھر چین کی وزارت خارجہ نے نیٹو چیف کے چین کو عالمی امن کیلئے خطرہ قرار دینے کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے نیٹو کو خطے میں عقل سے کام لینے اور نیا تنازعہ کھڑا کرنے سے خبردار کیا اور کہا کہ چین نے کبھی جارحانہ عزائم نہیں رکھے اور نہ ہی وہ خطے میں جنگ کی خواہش رکھتا ہے۔ اس سے پہلے جب جی سیون ممالک نے چین پر تنقید کی تو چین نے اسے جی سیون ممالک کی جانب سے چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا اور کہا کہ وہ وقت گزر گیا جب جی سیون جیسے ’چھوٹے‘ ممالک کے گروپ دنیا کی قسمت کا فیصلہ کیا کرتے تھے۔ ’چین کسی کیلئے چیلنج نہیں بنے گا لیکن اگر کوئی چیلنج ہمارے قریب آیا تو ہم ہاتھ باندھ کر بیٹھے بھی نہیں رہیں گے۔‘چین اس وقت تقریباً پندرہ ٹریلین ڈالرز کی معیشت کے ساتھ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ اگلے سات سالوں میں چین کے امریکہ سے معاشی اور فوجی طاقت میں آگے بڑھنے کی پیش گوئی کی جا چکی ہے۔ واضح رہے چین کا فوجی بجٹ امریکہ کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا ہے اور اس کے پاس دنیا کی سب سے بڑی فوج ہے۔نیٹو کے رہنما عام طور پر اس گروپ کے سب سے طاقتور رکن امریکہ کی اسٹریٹجک ترجیحات کے مطابق ڈھلنے کیلئے آمادہ رہتے ہیں۔ اگرچہ ایک مشترکہ موقف کے تحت یورپی یونین نے چین کو پہلے ہی ”منظم حریف" قرار دے رکھا ہے تاہم چین کے بارے میں امریکہ کی سوچ سے سارا یورپ اتفاق نہیں کرتا۔ مثلا سربراہی کانفرنس کے بعد جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے چین سے نمٹنے کے معاملے میں نیٹو کو 'توازن‘ برقرار رکھنے کا کہا اور سائبر و ہائبرڈ خطرات اور چین و روس کے درمیان تعاون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ چین کو آسانی سے نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اس لیے ہمیں کسی ایک چیز پر مبالغہ آراء کرنے کے بجائے توازن کا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ فرانس کے صدر ایمانوئل میکراں نے کہا کہ نیٹو ایک فوجی اتحاد ہے اور چین کے ساتھ تعلقات اس سے کہیں زیادہ وسیع تر ہیں۔ انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ چین پر توجہ مرکوز کرنے کے نتیجے میں ہم نیٹو کے بنیادی مقصد سے بھٹک جائیں گے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے بھی کہا کہ "میرا نہیں خیال کہ آج اس میز کے گرد بیٹھا کوئی بھی سربراہ چین کے ساتھ سرد جنگ شروع کرنا چاہتا ہے۔ چین نیٹو کیلئے ایک نئے اسٹریٹجک پہلو بے شک ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ شراکت کے مواقع بھی ہیں۔ انہوں نے روس کے ساتھ اچھے تعلقات کی ضرورت پر بھی زور دیا اگرچہ اس سے برطانیہ کی مایوسی کا اظہار کیا۔چنانچہ امریکہ کیلیے چین کے خلاف سویت یونین جیسا بلاک بنانا ممکن نظر نہیں آرہا۔ امریکہ چین تعلقات کا بہترین ماڈل وہ ہے جو ماحولیات، عالمی امن، تجارت، عوامی صحت اور بیماریوں کی روک تھام، اسلحہ دوڑ میں کمی، جوہری اسلحے کے عدم پھیلاؤ وغیرہ میں تعاون پر اور باہمی احترام و مفاہمت پر مبنی ہو۔ چین امریکہ کا عالمی حریف بے شک ہے مگر اسے امریکہ یا نیٹو کیلیے خطرہ یا دشمن سمجھنا بے تکی بات ہے۔