پارلیمانی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا جا رہا اور نہ ہی اِن غلطیوں پر کسی بھی فریق (سیاسی جماعتوں) کو پچھتاوا ہے۔ چلتے چلتے پاکستان کا پارلیمانی نظام اور تاریخ ایک ایسے موڑ تک آ پہنچے ہیں جہاں سے آگے اور پیچھے چھائی تاریکی میں ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہیں دے رہا اور شور بھی اِس قدر ہے کہ کان پڑی آواز تک سنائی نہیں دے رہی کہ کون کیا کہہ رہا ہے؟‘ کون روک رہا ہے یا پارلیمانی نظام میں کس کی بات سننی چاہئے؟ پارلیمانی نظام کی جس شاخ پر بیٹھے ہیں اُسی کو کاٹ رہے ہیں! کیا یہ حقیقت نہیں کہ سیاست شعور اور بیداری کا نام ہے۔ ’مؤثر سیاست‘ میں اپنے سے زیادہ دوسروں کے مؤقف کی اہمیت ہوتی ہے اور اِسی اصول کے تحت قصوروار وہ نہیں جس نے پہلا پتھر پھینکا بلکہ نفرت کی جھیل میں اشتعال کا باعث بننے والا پتھر (ہر جملہ‘ ہر نعرہ) قابل مذمت ہے۔ پاکستان کی پارلیمانی سیاسی تاریخ میں پارلیمینٹ کے اندر حکومتی اور حزب اختلاف کے اراکین کے مابین تین دن میں دو مرتبہ پیش آنے والی ہنگامہ آرائی ایسا پہلا واقعہ نہیں‘ ماضی میں بھی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ایسے ناگوار واقعات رونما ہوتے رہے ہیں اور سابق مشرقی پاکستان کی اسمبلی میں تو ہنگامہ آرائی کے دوران اچھالی گئی کرسی لگنے سے سپیکر جاں بحق بھی ہوگئے تھے۔ ایسے ناگوار واقعات 1990ء کی دہائی میں بھی دیکھنے میں آئے۔ ایک بار صدر مملکت غلام اسحاق خان کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں خطاب کے دوران بیگم تہمینہ دولتانہ نے اُن کی طرف اپنا دوپٹہ اچھال دیا تھا جبکہ پنجاب اسمبلی میں غلام حیدروائیں کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر مسلم لیگ (نواز) کے ارکان نے میاں منظور وٹو کے ساتھ کھڑے ہونے والے لیگی ارکان کی ہاؤس کے اندر درگت بنائی اور ان کے ساتھ ساتھ نومنتخب سپیکر کی جانب بھی کرسیاں اچھالنے کا سلسلہ شروع کیا تاہم جس انداز میں رواں ہفتے قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران حکومتی اور حزب اختلاف کے اراکین نے مساوی طور پر ایوان کا تقدس مجروح کیا اس کی پاکستانی پارلیمانی تاریخ میں مثال موجود نہیں۔ذہن نشین رہے کہ پارلیمنٹ وہ فورم (مقام) ہے جہاں عوام ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں قانون سازی اور آئینی ترامیم کیلئے اپنے نمائندے منتخب کرکے بھجواتے ہیں۔ ایک سال کے دوران پارلیمینٹ پر قریب چھ ارب روپے خرچ ہوتے ہیں جنہیں اگر 365 دنوں پر تقسیم کیا جائے تو پارلیمینٹ کا یومیہ خرچ قریب 5 کروڑ روپے ہے جو عوام کے ٹیکسوں سے جمع کرکے ادا کیا جاتا ہے۔ کیا اراکین پارلیمینٹ کو اِس بات کا احساس ہے کہ اُن کے اخراجات (تنخواہیں اور مراعات) کا بوجھ اُٹھانے والی عوام کی اِن کے بارے میں کیا رائے ہے؟ توجہ طلب یہ بھی ہے کہ بعض معزز ارکین اسمبلی تو مسلسل تین چار اور چھ چھ بار عوامی مینڈیٹ لے کر ایوان میں آئے ہیں جو ”سیزنڈ پارلیمنٹرین“ کا درجہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح اس ایوان میں فارن کوالیفائیڈ اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ بیرسٹر اور ڈاکٹرز بھی منتخب ہو کر آتے اور حکومتی یا اپوزیشن بنچوں کا حصہ بنتے ہیں۔ گزشتہ روز کی ہنگامہ آرائی میں یہ تمام ارکان بلاامتیاز شریک ہوئے اور مغلظات کے ذریعے اپنی علمیت اور ”فہم و بصیرت“ کا اظہار کرتے رہے۔ ان ارکان نے بنیادی طور پر ملکی اور قومی مفاد کے تناظر میں قانون سازی کرنی ہوتی ہے تاہم گزشتہ روز ان کے رویے نے مجموعی طور پر جمہوریت کا مردہ خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘ اس صورتحال کا وزیراعظم کو خود نوٹس لینا چاہئے کیونکہ جمہوری نظام اور جمہوریت کے وسیع تر مفاد کے تحفظ کی ذمہ داری بنیادی طور پر حکمراں جماعت پر عائد ہوتی ہے‘ جسے اِس پورے منظرنامے میں خاموش تماشائی کا نہیں بلکہ سرپرست اور جمہوریت کے محافظ کا کردار ادا کرنا چاہئے۔