اس میں گم ہو کر گھر کے کاموں کا سر کھاجانا بھی تو کسی کتاب میں نہیں۔اگر چہ کہ موبائل استعمال کرنے والا کوئی کتاب ہی وٹس ایپ کر رہاہو یا یوٹیوب پر سرچ کی دنیا میں غرقِ آب ہو چکا ہویا گوگل کی پیچیدہ گلیوں کا مسافرہو چکا ہو۔ان اندھیروں میں گم ہو چکا ہوکہ اب موبائل کی سکرین پر انگلیاں رکھے جیسے کوئی بڑھیا دیواریں ٹٹولے اور کسی گھرکی تھلی پر تھوڑاآرام کر نے کو بیٹھ جائے کہ اس کے گھٹنوں نے اسے الارم دے دیا ہو۔ایسی بھی کیا مجبوری کیسی عدیم الفرصتی کہ اپنوں کو دور کر دیا جائے اور دوررہنے والوں کو اپنے قریب اتناکر دیا جائے کہ آنکھوں کا ویوو بلاک ہو جائے اور اپنے قریب ترین لوگوں کی شکل بھی نظر نہ آئے۔ جہاں چار بندے دیکھو اکٹھے ہیں چاروں کے ہاتھوں میں موبائل ہوگا اور وہ نئی دنیاؤں کو فتح کرنے کو نکلے ہوں گے۔بچے ہوں گے تووہ کارٹون دیکھتے ہوں گے۔ ہر نسل ہر عمر کے لوگوں کی اپنی چوائس ہے کہ وہ اس کا استعمال کیسے کریں۔جو سات سمندر پار تھے وہ گلی کی نکڑپر آن پہنچے ہیں اور جو گلی کے موڑ پر تھے وہ دوستی یاری میں گھرکے اندر کمرے میں آکر خوش گپیوں میں چائے نوش فرما رہے ہیں۔ایک عجیب ہی دنیا ہے اور نئی دنیا ہے۔جو اپنے ہیں وہ ایک ساتھ بیٹھے ہیں مگر اپنے موبائل سیٹ میں گم ہیں۔پھرکوئی اکیلا بھی ہے تو موبائل لے کر سارا سارا دن بیٹھا رہے گا۔ اس کو اپنی بینائی کے کمزور ہوجانے کا خدشہ بھی نہ ہوگا اور وہ موبائل کی کارستانیوں کاشکار ہو کر اس سمندر میں غوطے کھا رہا ہوگا۔ مگر یہ لوگ ایسے ڈوب جاتے ہیں کہ اپنے بہت قریب کے عزیز رشتہ داروں دوستوں کو بھی وقت دینے سے قاصرہوں گے۔کیونکہ ان کی مجبوری ہے۔موبائل پر ان کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے دوست یار اتنے ہوں گے کہ انھیں رشتہ داروں کی کمی بھی نہیں ستائے گی۔ مگر ایسے میں اگر اپنے گھر والوں کو بھی وقت نہ دیں توبہت افسوس ہے۔جتنا بھی مصروف ہو جائیں اگر ہوتانہیں تو وقت نکالنا پڑتا ہے۔یہ کیا کہ کسی قریب کے بندے کو بھی وقت نہ دیا جاسکے۔ اتنا تو مصروف ہونا از روئے اخلاق درست نہیں۔ ماں باپ اور بہن بھائی پھردیگر گھر والے بھی تو ہماری اپنی مصروفیت کاحصہ ہے۔میں حیران ہوں کہ وہ اگر جی رہے ہیں تو کیسے جی پا رہے ہیں۔وہ لوگ جو ٹچ موبائل استعمال نہیں کرتے۔ کیونکہ میں نے بچے بچے کودیکھا کہ ان کے پاس بھی رنگین سکرین والے انڈرائڈ موبائل ہاتھوں میں تھامے ہیں۔مگر میں نے اس کے باجود یہ بھی دیکھا کہ وہ لوگ بھی اسی دنیا میں رہتے ہیں کہ جو دو انگشت کا موبائل چھوٹا ڈبیا سا استعمال کرتے ہیں۔لمبے لمبے ایس ایم ایس لکھیں گے مگر ٹچ موبائل استعمال نہ کریں گے تاکہ ان کو آسانی حاصل ہو۔ وہ اپنی لمبی بات کو وٹس ایپ پر وائس میسج میں بھیج دیں۔پہلے تو ان کو انسان کے درجے سے نیچے سمجھا جاتا تھا جن کے پاس کلر موبائل تھے۔ مگر اب تو معاملہ الٹا ہے۔ اب تو ہر چیز موبائل میں ایک ہتھیلی میں سما گئی ہے۔پوری ایک دنیا ہے جو ایک ہاتھ میں بے وزن ہو کرسمٹ کر آ گئی ہے۔ہال ہو یا کمرہ ہو راستہ ہو چوبارہ تنگ گلی ہو یا کشادہ سڑک ہو پیدل ہو کہ سوار ہودفتر ہو کہ گھر بار ہو ہر جگہ اصل حکم اسی کا چلتا ہے۔ ایسے بھی ہیں کہ دو انگلیوں کا سا موبائل بھی ستعمال نہیں کرتے۔ بلکہ اکثر کے پاس تو موبائل سر ے سے موجود ہی نہ نہیں۔ مگر کوئی موبائل پاس نہ رکھے تو فرداً فرداً الگ حکمت عملی ہو سکتی ہے۔مثلاً کوئی افسر کے نخروں سے تنگ ہو اور دفتر سے نکلتے ہی سکون محسوس کرتا ہو۔اگر ایسے میں اس نے موبائل نہیں رکھا تو اچھا ہی کیا۔ پھر وہ کہ گھر سے نکلتے ہوں تو گرمی کے ان دنوں سکون کی ٹھنڈی سانسیں لیتے ہوں۔اگر ان کے پاس موبائل موجودہو تو خاتونِ خانہ کی طرف سے الگ گھنٹیاں بجیں گی۔گھنٹہ بھر گذرے گا توپوچھا جائے گا اب کہا ں ہو۔لہٰذا کون اتنے جھنجٹ پالے۔سیدھے سبھاؤ جیب میں موبائل نہ ہو تو کہیں بہتر ہے۔سو عدد سوال نہ ہوں تو ایک بھی ہو مگر جواب کہاں۔ ہمارے بعض بھائی بند موبائل پاس نہ رکھنے کے اسی وجہ سے قائل ہیں کہ ان کا پتا نشان گھروالوں یا گھر والی کو معلوم نہ ہوسکے۔ ایک بندہ رنگساز ہے۔ وہ سیڑھی پر چڑھ کر دیوار کے آخری کونے میں رنگ کے برش پھیر رہاہے۔ اس کے ہاتھ بھی پینٹ سے آلودہ ہیں اور کپڑے بھی رنگ میں لتھڑے ہیں۔اب اس کے گھر سے فون آئے گا وہ نیچے اترے گا تو فون پر مختصر سا انٹرویو دے گا۔پھر دیوار سے لگی سیڑھی پر چڑھے گا تھوڑی دیر بعد دوبارہ گھر سے کال آئے گی۔ نیچے آکر رنگ دار ہاتھوں سے جیب میں سے فون نکالے گا۔ معلوم کرے گا خیر تو ہے گھر سے فون کیوں آ گیا۔ وہاں سے کہا جائے گا کہ آؤ تو دہی ساتھ لے آنا بریانی بنانی ہے۔ ایسے میں وہ کسی کے قائل کئے بغیر خود تسلیم کرلے گا کہ فون پاس رکھنا درست نہیں۔پھرسمجھدار لوگوں کو اس مزدور کی سمجھ کا قائل ہوناپڑے گا۔