ایران: صدارتی انتخابات

اسلامی جمہوری ایران کے قانون کے مطابق دو مرتبہ صدر رہنے والا مسلسل تیسری مرتبہ صدراتی انتخاب میں بطور اُمیدوار حصہ نہیں لے سکتا اُور یہی وجہ ہے کہ موجودہ صدر حسن روحانی کے جانشین کے انتخاب کے لئے 4 امیدوار (عبدالناصر ہمتی‘ محسن مہرالی زادہ‘ سعید جلیلی اُور ابراہیم رئیسی) قسمت آزمائی کر رہے ہیں جبکہ ایران کے سیاسی نظام پر تنقید کرنے اُور خود کو اصلاح پسند کہلوانے والوں نے اِس (اٹھارہ جون کے) انتخاب کا بائیکاٹ کر رکھا ہے اُور اُن کا مؤقف ہے کہ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے خواہشمند کئی امیدواروں پر پابندی کے بعد ابراہیم رئیسی کے لئے جیت کی راہ ہموار کی گئی ہے۔تین سال قبل امریکہ کی جانب سے جوہری معاہدہ سے یک طرفہ طور پر الگ ہونے کے بعد سے ایران پر زیادہ سخت تجارتی و اقتصادی پابندیاں عائد ہیں‘ جن کے باعث عام ایرانیوں کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ ایران کا سیاسی و انتخابی نظام پیچیدہ ہے‘ جس میں جدید دینی طرز حکومت کو جمہوریت کے ساتھ ملایا گیا ہے۔ ایران کے عوام اپنے صدر اور پارلیمان کے اراکین کا انتخاب کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ غیر منتخب افراد پر مشتمل ایسے قومی ادارے بھی موجود ہیں جو اہم فیصلے کرتے ہیں اُور اِن اداروں کی سربراہی ’رہبر معظم‘ آیت اللہ سیّد علی خامنہ اَی کے ہاتھ ہے۔ انقلاب ِایران کے بعد تخلیق کئے گئے رہبر ِمعظم کے عہدے پر آج تک صرف 2 لوگ فائز ہوئے۔ پہلی مرتبہ اسلامی انقلاب (1979ء) کے بعد آیت اللہ خمینیؒ کو یہ عہدہ دیا گیا جس کے بعد سے آیت اللہ علی خامنہ ای ’رہبر معظم‘ ہیں جو ایران کی دفاعی افواج کے حاکم (کمانڈر اِن چیف) اور ملک میں سکیورٹی کے معاملات کے نگران بھی ہیں۔ رہبر معظم عدلیہ کے سربراہ‘ نگہبان شوریٰ کے نصف اراکین‘ نماز جمعہ کے لئے امام اور سرکاری نشریاتی و اشاعتی اداروں کے منتظمین (سربراہوں) کا انتخاب کرتے ہیں۔ رہبر معظم زکواۃ کی طرح خمس اُور دیگر ذرائع سے ملنے والے اربوں ڈالر آمدنی اُور اِس آمدنی سے چلنے والے خیراتی اداروں کی نگران بھی کرتے ہیں جس کی ایرانی معیشت اُور دنیا بھر میں انقلاب ایران کے اثرورسوخ کو عام کرنے میں کلیدی کردار ہے۔صدر حسن روحانی  گزشتہ دو صدارتی انتخابات غیرمعمولی فرق سے جیتے اُور انہیں انتخاب کے پہلے مرحلے میں پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ ملے تھے جس کی وجہ سے دوسرے مرحلے میں مقابلے کی ضرورت نہیں پڑی۔ صدارتی امیدواروں کو انتخابات سے قبل نگہبان شوریٰ سے منظوری بھی درکار ہوتی ہے۔ یہ نگہبان شوریٰ علمائے کرام اور قانونی ماہرین پر مشتملبارہ رکنی ادارہ ہے‘۔ رواں انتخابات (دوہزاراکیس) کے لئے 590 افراد نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے مگر صرف سات افراد کے کاغذات نامزدگی منظور کئے گئے جبکہ ایرانی خواتین کو صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ایران کی آبادی آٹھ کروڑ تیس لاکھ ہے جن میں پانچ کروڑ اَسی لاکھ لوگوں کی عمر اٹھارہ سال سے زیادہ ہے اور وہ ووٹنگ میں حصہ لینے کا حق رکھتے ہیں۔ ایرانی الیکٹوریٹ کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مبنی ہے کیونکہ ملک میں قریب نصف آبادی تیس سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ایران میں 2020ء کے پارلیمانی انتخابات کے علاوہ تمام الیکشنز میں رائے دہی کا تناسب پچاس فیصد سے زیادہ رہا ہے۔ صدارتی انتخاب میں ابراہیم رئیسی کی کامیابی یقینی ہے جسے مبینہ طور پر قدامت پسند حلقوں کی حمایت حاصل ہے۔اسلامی انقلاب کے بعد ابراہیم رئیسی نے عدلیہ کے شعبے کا انتخاب کیا تھا۔ انہوں نے 1988ء میں تہران کے اسلامی انقلاب کی عدالت کے ڈپٹی پراسیکیوٹر کے فرائض سرانجام دیئے اس کے علاوہ ماہرین کی اس طاقتور اسمبلی کے بھی رکن ہیں جو رہبر معظم کی تقرری یا انہیں ہٹانے کی ذمہ دار ہے۔