بلدیاتی ادارے اور جمہوریت کااستحکام 

ایک اخباری اطلاع کے مطابق خیبرپختونخوا حکومت اور الیکشن کمیشن نے صوبے میں رواں برس ستمبر کے مہینے میں بلدیاتی انتخابات کرانے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ اتفاق اسلام آباد میں چیف الیکشن کمشنر کی زیر صدارت چاروں صوبوں اور اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری کے بلدیات سے متعلق اعلیٰ حکام کے ایک خصوصی اجلاس میں کیا گیا ہے۔ یہ اطلاعات اس خبر کے پس منظر میں سامنے آئی ہیں کہ صوبائی دارلحکومت پشاور میں آئندہ بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں سات مقامی حکومتیں تشکیل دی جائیں گی جن میں ایک سٹی لوکل گورنمنٹ ہوگی جسے کیپٹل میٹرو پولٹین گورنمنٹ کا نام دیا گیا ہے جبکہ اس اس کے علاوہ ضلع پشاور میں دیہی علاقوں پر مشتمل چھ تحصیل لوکل گورنمنٹ(مقامی حکومتیں) بنائی جائیں گی۔ صوبے میں بلدیاتی اداروں کے قیام کے موضوع پر ایک طویل وقفے کے بعد دوبارہ بحث ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب ایک جانب حکومت نے رواں سال کے اختتام تک چاروں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کا عندیہ دیا ہے جبکہ دوسری طرف صوبائی حکومت بھی پچھلے چند ماہ سے مسلسل یہ تاثر دے رہی ہے کہ وہ نہ صرف بلدیاتی انتخابات کرانے کے لئے تیار ہے بلکہ اس نے اس ضمن میں پوری تیاری بھی کر رکھی ہے۔ اس طرح الیکشن کمیشن بھی متعدد بار اس بات کا اظہار کر چکا ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات کرانے کے لئے تیار ہے البتہ اس ضمن میں صوبائی حکومتیں وہ گرمجوشی نہیں دکھا رہی ہیں جو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لئے ضروری ہے۔ یہ ساری بحث ایک ایسی جماعت کے عرصہ اقتدار میں ہورہی ہے جو نہ صرف شروع دن سے بلدیاتی نظام کے زبر دست حق میں رہی ہے بلکہ بلدیاتی اداروں کا قیام اسکے منشور کا ایک اہم اور بنیادی نکتہ بھی ہے۔ اسی طرح یہ حقیقت بھی کسی سے مخفی نہیں ہے کہ وزیر اعظم عمران خان بلدیاتی اداروں کے قیام اور ان اداروں کو جمہوریت کے استحکام کے لئے جتنا ناگزیر اور ضروری قرار دیتے رہے ہیں اتناشاید پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی بھی سیاسی رہنما اور کسی بھی سیاسی جماعت نے ان اداروں کے قیام پرزور نہیں دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا بلدیاتی اداروں سے متعلق یہ موقف آج بھی اکثر لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہوگا جب وہ بڑے مدلل انداز میں بر طانیہ میں کارفرما مقامی حکومتوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اسی نوع کا نظام پاکستان میں بھی رائج کرنے کا عزم کرتے تھے۔ ان کے اس موقف کے پیچھے جہاں برطانیہ کا مستحکم اور پائیدار مقامی حکومتوں کا نظام اوراس نظام سے عام افراد کو مختلف شعبوں میں ملنے والا ریلیف پاکستانی شہریوں کے لئے بھی متعارف کرانے کا جذبہ کار فرما ہوتا تھا و ہاں وہ اس نظام کے تحت قائم کرکٹ کے کاؤنٹی سسٹم کو بھی پاکستان میں کرکٹ کے فروغ کے لئے ایک ضروری عنصر سمجھتے تھے لیکن اب تک کرکٹ کے فرسودہ نظام میں کوئی انقلابی تبدیلی لائی جا سکی اور نہ ہی بلدیاتی نظام کے نفاذ کے لئے کچھ کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات اور اسکے نتیجے میں بننے والے بلدیاتی اداروں کی میعاد کو ختم ہوئے دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن تاحال بلدیاتی اداروں کا دوبارہ قیام ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ یہ بات ریکارڈ پرہے کہ سابق حکمران بھی بلدیاتی اداروں کے عدم قیام کی پا لیسی پر گامزن رہے حتیٰ کہ جمہوری نظام کو تسلسل دینے والے بعض وزراء اعظم نے بھی بلدیاتی اداروں کے قیام کے جھنجھٹ میں پڑنے کی ضرورت محسوص نہیں کی۔ ایسا کیوں ہے اور منتخب حکمران بلدیاتی اداروں کے قیام سے اتنے خائف یا الرجک کیوں ہوتے ہیں اس بحث میں پڑنے کی بجائے بر سرزمین حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم وطن عزیز میں اکیسویں صدی سے ہم آہنگ جمہوری کلچر کا فروغ چاہتے ہیں تو اسکے لئے ہمیں نیک نیتی سے ملک بھر کے لئے ایک یکساں اور متفقہ بلدیاتی نظام کی داغ بیل ڈالنی ہوگی۔ ہم مغربی جمہوریت کے اثرات اور فوائدتو سمیٹنا چاہتے ہیں اور اس نظام کو اپنے22 کروڑ عوام کے فلاح و بہبود کا ضامن تو سمجھتے ہیں لیکن اس نظام کی بنیادسمجھے جانے والے بلدیاتی اداروں کے قیام کے لئے تیار نہیں ہیں۔یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کیکر کے درخت سے آموں کی آس لگائے لہٰذا اگر ہم اپنے شہریوں کو بعض بنیادی سہولیات بلدیاتی اداروں کے قیام کے ذریعے انکی دہلیز پر پہنچاکر انہیں جمہوریت کے پھل سے بہرہ مند کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے حکومت کو اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے نہ صرف ایک متوازن بلدیاتی نظام تشکیل دینا ہوگا بلکہ عام انتخابات کی طرح بلدیاتی انتخابات کے بروقت انعقاد کو قانون سازی کے ذریعے آئین کا متفقہ حصہ بھی بنانا ہوگا۔