کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ بلیک اینڈ وائٹ کے زمانے میں چلے جائیں۔وہ زمانہ جب سب اچھی چیزیں خالص تھیں۔ محبتوں میں خلوص تھا۔ اب کی رنگین تصویریں جو ماضی کا دیار ہیں۔وہ دیکھوں تو جی اتنا نہیں للچاتا کہ اس دنیا میں گھوڑے کی لگام موڑ کر چلے جائیں۔ مگر اس سے پیچھے زمانے کی کالی تصویروں کو دیکھ کر جانے کیوں دل میں ہوک سی اٹھتی ہے اک درد سا دل میں ہوتا ہے۔ہائے وہ لوگ وہ سادگی وہ ماحول سب کچھ اب وقت کی پٹاری میں سے ڈیلیٹ ہو چکا ہے۔گھاس کے اوپر بیٹھ کر قہوہ خانے میں دوستوں کے ساتھ گپ ہانکنا اور ساتھ قہوے کی سرکیاں لیتے جانا۔وہ بچپن کی یادیں۔ بس یادیں رہ جاتی ہیں اور چھوٹی چھوٹی باتیں رہ جاتی ہیں۔معصومیت کا زمانہ ہوش سے بیگانہ ہونے کی دلفریب دنیا۔ اس وقت یہ رنگا رنگی یہ نیرنگی نہ تھی۔ پہلے تو جس طرف جاتے رہو۔نہ رکاوٹ نہ کوئی پا پیادہ نہ کوئی چیکنگ ارے کچھ بھی تو نہیں تھا۔ حتیٰ کہ جرائم بھی نہ تھے۔ شورلیٹ گاڑی تھی۔ جس میں ہم والد کے ساتھ نتھیا گلی گئے۔ مرحوم ایبٹ آباد میں نائب تحصیلدار تھے۔ نتھیا گلی بھی کیا تھی۔وہ نہیں تھی جس طرح اب ہے۔بس ایک ویران سی گذرگاہ پرانے تختوں سے بنا ہوا ایک آدھ ہوٹل جہاں مشکل ہی سے کوئی آتاتھا۔وہ گلیاں اب یاد آتی ہیں تو کلیجہ کٹ جاتا ہے۔ اب تو وہ عالم نہیں۔اب تو ایک عالم میں ایک اور دنیاسمائی ہوئی ہے۔اب تو پہاڑی مقامات پر گلیاں ہی گلیاں اگ آئی ہیں۔اس کے علاوہ اور اوپری ٹھنڈے ٹھار علاقے بھی دریافت ہو چکے ہیں۔ اتنے کہ نیا علاقہ مل جائے تو یو ٹیوب والے وہاں جا کر ویڈیو بناتے ہیں۔ پھر ہوٹل میں مالک کے ساتھ انٹرویو کر کے اپ لوڈ کر دیتے ہیں۔ پھر سیر بینوں کے سیلاب کا رخ ان پہاڑی جنگلوں کی طرف موڑ کاٹ لیتا ہے۔جب ہمارے ہاں پشاور میں دو سہیلیاں مل کر فلم دیکھنے کے لئے چلی جاتی تھیں۔ سینما میں کوئی ایسی بات ہی نہ تھی کہ کوئی ماں باپ ان کو یہاں جانے سے روکتا۔ اب تولڑکوں تک کو بلا ضرورت بازار ہی جانے سے والدین منع کرتے ہیں۔یہ اب ان باتوں ان یادوں کا تذکرہ کرتی ہیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ موجودہ جدید دور میں جہاں ہر مقام پر کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے تحفظ نہیں تواس زمانے میں کیسے پر امن ماحول تھا۔ یقین نہیں آتا۔ اب تو فلموں کا معیار خود فلم بینوں کی ڈیمانڈ پر بدل چکا ہے۔اب تو رنگین ہوں مگر فلموں میں وہ چس نہیں رہاجو پہلے تھا۔ گانوں کی شاعری واقعی صحیح معنوں میں شاعری تھی۔ مگر اب تو کچھ آوازوں کو جوڑ کر اور گلے کو آڑھا ترچھاکر کے کوئی گیت سا بنا لیتے ہیں۔زمانے نے ایسی کروٹ لی ہے کہ جو اوپر تھا نیچے آ رہاہے اور جو کچھ زمین پر تھا غائب ہوگا۔ سڑکو ں پر اکا دکا لوگ گذرنے والے تھے۔ مگر اب تو جانے یہ پبلک کہاں سے آ گئی ہے۔ماضی کے ساتھ اس وقت محبت ہوتی ہے جب ماضی شاندا ر رہاہو۔ مگر اس وقت ماضی عذاب بن جاتا ہے جب ماضی داغدار رہاہو اور بندے کو غلطی کا احساس ہو کہ میرا ماضی خراب تھا۔مگر ماضی کی اچھی باتیں پھر بھی آدمی کو یاد آکر ستاتی ہیں۔کون ہوگا جس کو ماضی یادنہ آتا ہو۔ آدمی کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ ماضی کو ضرور یاد کرتا ہے۔کیونکہ پچھلے زمانے میں بہت پیارے لوگ موجود ہوتے ہیں جو حال میں ساتھ نہیں ہوتے۔ان کا دامن ہاتھ سے چھوٹ چکا ہوتا ہے۔وہ بہت دور جاچکے ہوتے ہیں وہاں جہاں سے کوئی واپس نہیں آسکتا۔ماضی کی وہ بلیک اینڈ وائٹ تصویریں اب بہت ہانٹ کرتی ہیں۔ دیکھنے والے کی آنکھوں کو گروی رکھ لیتی ہیں۔اس بہانے جانے اور کیا کیا یاد آنے لگتاہے۔”بجے گی جب بھی شہنائی تو لے گا دردانگڑائی۔ ہزاروں غم ترے غم کے بہانے یاد آئیں گے“۔آج کی نسل کو درمیانے دور کے گانے نہیں سننا۔ حالانکہ وہ رنگین ہیں۔ مگر وہ ان کے حساب سے بہت پرانے گیت ہیں۔اگر وہ ہمیں اس سے پہلے کے بلیک اینڈ وائٹ گانے سنتے ہوئے دیکھ لیں تو حیران ہوتے ہیں۔پھر پریشاں حالی میں جھلاکر پوچھتے ہیں کہ آپ کو ان گانوں سے کیا ملتا ہے۔ان میں کیا رکھا ہے۔وجہ یہ ہوتی ہے کہ کمرے کی ایک ہی ٹی وی سکرین پر جب کوئی بزرگ قبضہ کر لے تو بچوں کے اس قسم کے مختلف بیانات سامنے آنے لگتے ہیں۔ سینئر لوگوں کے پاس اپنے موبائل ہیں وہاں گانے لگائیں اور شوق سے لگائیں سنیں اور جھومیں اور یاد کریں ان یادوں کو جو اب ایک یاد بن کر رہ گئی ہیں۔اکثریت کو موقع دینا چاہئے۔ آج کل کے لوگ پرانے ماحول کے ساتھ کوئی دلی لگاؤ نہیں رکھتے۔وقت کی پکار اپنی ہوتی ہے وقت کی آواز ہوتی ہے۔ اس آواز پر کان دھرنا چاہئے۔اگر ہم ہوا کے رخ پر نہیں جائیں گے تو ہمیں ہوا کے خلاف چلنے میں جسم جاں کا بہت زور صرف کرنا ہوگا۔جب ہوا کے رخ پر اپنے آپ کو حوالے کردینا ہے تو پھر نئے زمانے کے صبح وشام کی تلخی کو شیرینی سجھ کر جام میں ڈالناہوگا۔ کیونکہ یہی زندگی ہے۔