صبرآزما جمہوریت۔۔۔۔

صبح کا بھولا اگر شام کو گھر آئے تو اُسے بھولا نہیں کہتے۔ قومی اسمبلی میں حکومت اور حزب اختلاف کے مابین طے پایا ہے کہ ایک دوسرے کے پارلیمانی قائدین کا احترام کیا جائے گا۔ اُن کی تقاریر میں غیرقانونی طریقے سے مداخلت نہیں کی جائے گی۔ رولز کا احترام نہ کرنے اور ایوان میں ہاتھا پائی کرنے پر سخت تادیبی کاروائی ہوگی۔ اسی طرح مفاہمت کی خاطر قومی اسمبلی میں دس جون کو ہونے والی قانون سازی پر حزب اختلاف کے تحفظات کو سامنے رکھتے ہوئے بارہ رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ جاری بجٹ اجلاس میں ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی صدارت کے دوران حکومت نے حزب اختلاف کو خاطر میں لائے بغیر جس انداز میں یکے بعد دیگرے اکیس مسودات قانون پیش کرکے ان کی ایوان میں منظوری حاصل کی وہی سرکاری اور حزب اختلاف کے مابین کشیدگی کا نکتہئ آغاز تھا‘ جس پر حزب اختلاف کی جانب سے ڈپٹی سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی جبکہ بجٹ پیش ہونے کے بعد وزیراعظم عمران خان بجٹ پربحث کے آغاز کے لئے اپنی نشست پر کھڑے ہوئے تو اپوزیشن بنچوں کی جانب سے انہیں سخت ہوٹنگ کا نشانہ بنایا گیا جس نے جلتی پر تیل کا کام دکھایا اور پھر سرکاری بنچوں کے ارکان وفاقی وزراء‘ وزرائے مملکت اور معاونین خصوصی کی معیت میں حزب اختلاف کے رہنما شہبازشریف کی بجٹ تقریر کو سبوتاژ کرنے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے ہاؤس میں آئے چنانچہ شہبازشریف جیسے ہی تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو سرکاری بنچوں کی جانب سے ان کی سخت ہوٹنگ اور ہاؤس کے اندر سیٹیاں بجانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ نوبت دھکم پیل اور گالی گلوچ تک جا پہنچی جو دونوں جانب سے ایک دوسرے پر بجٹ کی ضخیم کتاب کے ذریعے حملہ آور ہونے پر منتج ہوئی جس سے ملیکہ بخاری اور دیگر ارکان اسمبلی کے علاوہ متعدد سکیورٹی اہلکار بھی زخمی ہوئے یقینا اس سے ایوان کا تقدس بھی مجروح ہوا اور اندرون و بیرون ملک ہمارے جمہوری نظام کا مذاق بھی اُڑایا گیا۔ قانون ساز ایوان ہو یا نہ ہو کسی بھی محفل یا خلوت میں عامیانہ زبان اور طرزعمل کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے‘ جس کے لئے جمہوری روایات کو نہیں بلکہ اخلاقی اقدار کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ یہاں یہ مرحلہئ فکر بھی لائق توجہ ہے کہ جب جمہوری ایوانوں میں اخلاقیات کا خیال نہیں رکھا جاتا تو ایسی صورت میں جمہوری نظام کے ناقدین کو دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع مل جاتا ہے۔ قومی اسمبلی اجلاس میں مسلسل تین روز تک حزب اقتدار و حزب اختلاف کے اراکین ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ء نظر آئے چنانچہ سسٹم کی بقا کے حوالے سے مختلف خدشات بھی سر اٹھانے لگے۔ اگریہ صورتحال مزید کچھ روز برقرار رہتی تو اپنے روٹی روزگار کے مسائل کے حل کیلئے پارلیمانی اراکین سے توقعات باندھے بیٹھے عوام کی سلطانیئ جمہور کے ساتھ وابستگی میں دراڑیں پیدا ہوتیں۔ اگر حکومتی اور حزب اختلاف کے بنچوں میں کشیدگی برقرار رہتی تو جمعۃ المبارک کے اجلاس میں ڈپٹی سپیکر کے خلاف حزب اختلاف کے بنچوں کی لائی گئی عدم اعتماد کی تحریک بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتی جس کے بعد سپیکر قومی اسمبلی کے سر پر بھی عدم اعتماد کے خطرے کی تلوار لٹک جاتی۔ اس سے ہاؤس کو چلنے نہ دینے کا منظر بنتا تو عملاً ہاؤس کا چلنا ناممکن ہو جاتا تاہم دونوں جانب کے پارلیمنٹرینز کو بروقت احساس ہو گیا کہ ان کی باہمی کشیدگی بالآخر سسٹم کے ماضی کی طرح لپیٹے جانے پر منتج ہو سکتی ہے اس لئے سپیکر قومی اسمبلی کی مفاہمانہ کوششوں پر دونوں فریقین کے مابین مفاہمت کا راستہ نکل آیا۔ پارلیمانی جمہوری نظام میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں کی اپنی اپنی حیثیت اور اہمیت ہے۔ اپوزیشن کو حکومتی اقدامات‘ پالیسیوں اور فیصلوں پر تعمیری تنقید کا حق حاصل ہوتا ہے جس کا مقصد سسٹم اور انداز حکمرانی میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرکے حکومت کی توجہ اصلاح احوال کی جانب مرکوز کرانا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاسی اور انتخابی کلچر میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی روایت ابھی تک پروان نہیں چڑھ پائی اور سیاسی محاذآرائی جمہوریت سے وابستہ جماعتوں اور ان کے قائدین کا خاصہ رہا ہے چنانچہ متعدد اسمبلیاں محاذآرائی کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں جبکہ ماورائے آئین اقدامات کا راستہ بھی باہمی محاذآرائی کی اس فضا کے باعث ہی نکلتا رہا ہے۔ جمہوریت صبر آزما نہیں ہونی چاہئے کہ اِس کے ذریعے عوام کے صبر و برداشت کا امتحان لیا جائے۔ سیاست دان کم سے کم اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ اپنی صفوں میں رواداری کو فروغ دیں اُور اِس اتحاد و اتفاق سے متعلق اپنی ذمہ داری کو قبول کریں۔