کورونا کی ویکسین تو آ گئی ہے۔مگر ٹک ٹاک کی واپسی کا ٹکٹ کب آئے گا۔یہ بھی تو ایک سے دوسرے کو پھیلنے والا مرض ہے۔پھر کورونا تو اکثر پیچھا چھوڑ دیتا ہے۔مگر یہ بخار تو ہزار درجے سے اوپر ہے۔ جو بندے کی جان کو دبوچ لے تو چھوڑتا نہیں۔اس کو نکیل ڈالنا مشکل ہوا جاتا ہے۔کورونا کم ہوگیا ہے اور امید ہے کہ ختم ہو جائے گا مگر اس بات کی امید رکھنا اپنے آپ کو احمقوں کی جنت میں رکھنا ہے کہ ٹک ٹاک کا بخار اتر جائے گا۔ یہ تو روزبروز زیادہ ہوتا جا رہاہے۔ٹک ٹاک میں اگر اچھے پہلوؤں کی کھوج کی جائے تو برا نہیں۔مگر یہاں تو ہنسی مذاق کے نام پر دوسروں سے مذاق کیا نہیں جاتا دوسروں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔اس ٹک ٹاک کے بخار کی ویکسین ایجاد کرنے کی کوشش نہیں ہوسکتی۔مگر اس کی روک تھام کے لئے اب تک اقدامات ضرور اٹھائے گئے۔مثلاً اس میں یہ شرط ہے کہ پستول خواہ پلاسٹک کا کیوں نہ ہو ٹک ٹاک میں نہیں دکھانا۔ کیونکہ اس سے بچے بہت برا اثر لیتے ہیں۔ پھر وہ سچ مچ کی بندوق اٹھا کر ٹک ٹاک میں نیا پن لانے کی غرض سے فائر بھی کر دیتے ہیں۔ پھر اس حدتک کہ وہ اپنے آپ کو گولی مار دیتے ہیں تاکہ ٹک ٹاک کی دنیا میں نیک نامی حاصل کرلیں۔یہ نیک نامی تو نہیں۔پھر تفریح کے نام پر فیس بک کے شائقین کو ایک نئی چیز دے کر چلے جائیں۔ ہمارے ہاں ٹک ٹاک پر پابندی لگی۔مگر بعد میں اس پرسے یہ تلوار ہٹا دی گئی۔ لیکن کچھ شرائط کے ساتھ جس کا بیان ابھی میں نے کیا۔لیکن جو دوسرے ملکوں سے ہمارے ہاں بھیجی جاتی ہے وہ ٹک ٹاک مووی تو روکے نہیں رکے گی۔ وہاں تو پستول دکھا کرخواتین کو ہراساں کرنا عام سی بات ہے۔ہر چند کہ بعد میں ان کو یو ٹوبر بتلادیتے ہیں کہ میں تو مذاق کر رہاتھا اور یہ پستول پلاسٹک کے کھلونوں والا ہتھیار ہے۔مگر سامنے والے کا تو دم آپ نے خشک کر دیا۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں یو ٹیوب کا نمبرون ٹک ٹاک بنانے والااس وقت پولیس کی حراست میں ہے۔اس کو زیرِ تفتیش رکھا ہے۔ اس نے سینکڑوں موویاں بنائیں۔ ہر چند کہ وہ مذاق کر رہا ہے مگر شہریوں کو اس طرح ہراساں کرنااور رنگ میں بھنگ ڈالنا کسی کو زیب نہیں دیتا۔ پھر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو پولیس نے جیسے تیسے پکڑلیا۔ اب اس نے توبہ کی ہے کہ اگر میں نے پھر ویڈیو بنائی تو میں حد سے زیادہ احتیاط کروں گا۔ اس کی موویاں ہر چند کہ میں نے بھی بہت دیکھی ہیں۔ ہنسا بھی ہوں۔مگر اس کی حرکتیں مجھے پسند نہیں آئیں۔شہری اور شہر اور شہریت کے اپنے ضابطے ہیں۔ہم جس سے آگاہ نہیں ہیں کہ شہریت کسے کہتے ہیں سوک سینس کیا ہوتاہے۔مگر جو جی چاہے کرتے پھرنا تو ٹک ٹاک کے نام پر کالا دھبہ ہے۔اس کے باجود یہ بخار زیادہ ہو رہاہے۔کورنا سے تو بچت ہے مگر اس شرارت سے نجات ملنے کے آثار نہیں ہیں۔پستول نہیں دکھلانا مگر دکھانا اتنا ہی ضروری ہو تو انگلیوں سے پستول کا نشان بنا کرٹک ٹاک بنالینا۔ مگر اس کے باوجود بیہودہ پن تو اپنی جگہ موجود ہوتاہے۔جو مختلف طریقوں سے حیلوں بہانوں سے پیش کر دیا جاتا ہے۔کورونا کے اتنے کیس تو نہیں ہیں مگر ٹک ٹاک کے کروڑہا کیس سامنے آ رہے ہیں۔کتنے بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ یہی ٹک ٹاک کاشوق اور جنون ان کو لے ڈوبا۔ ریل کی پٹری پرآتے ہوئی ٹرین کے سامنے بیچ پٹری کھڑے سیلفی بناتے ہوئے کتنے نوجوان ریل گاڑی کے نیچے آ چکے ہیں۔سردریاب کے بہتے ہوئے زور آور پانی میں کود کر دریا کے پار جانے کے مقابلے کے دوران میں مووی بن رہی تھی۔ مگر چھلانک لگانے والا بجائے اس کے کہ پار اترتا الٹا وہ موت کی وادی میں اتر گیا۔اس کو دریا بہاکرلے گیا۔ یہ لوگ جو دریا کنارے کھڑے پہلے خوشی سے چیخ رہے تھے یہی نوجوان اپنے ساتھی کو ڈوبتے ہوئے دیکھ کر دوبارہ سے آہ وبکا اور فریاد کرتے ہوئے چیختے چلاتے رہ گئے۔ایک تو پانچویں منزل کے اپنے فلیٹ میں بالکونی میں کھڑا سیلفی لیتے ہوئے کمر کے بل جنگلے کے اوپر سے گلی میں نیچے جا گرا۔کورونا تو قسمت کی وجہ ہے اورٹک ٹاک کابخار تو اپنے کرتوتوں کا کڑوا کسیلا پھل ہے۔