با پ کا سا یہ سر سے اُٹھ جا ئے تو آدمی کا کیا حال ہوتا ہے اس کا اندازہ صرف اُس آدمی کو ہو تا ہے جو اپنے باپ کو دفن کر کے آیا ہو اس لمحے کی درد ناک اور کربنا ک حا لت کا اندازہ کسی دوسرے کو نہیں ہو سکتا ماں باپ کی قدرو قیمت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ قرآن اور حدیث میں بار بار والدین کے حقوق اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تا کید آئی ہے بنی اسرائیل کو دیئے گئے بارہ احکا مات میں بھی ما ں باپ کے حقوق کا ذکر مو جود ہے حضرت لقمان کی وصیت میں بھی والدین کی قدر و منزلت پر زور دیا گیا ہے اور توحید کے بعد والدین کی عزت کو دوسرا درجہ دیا گیا ہے آج میرے باپ کا سایہ سر سے اتر گیا تو میرے ذہن پر ان کی 99سالہ زند گی میں سے 61سا لوں کی وہ زندگی چھا ئی ہو ئی ہے جس کو میں نے شعوری طور پر دیکھا تھا اور اس میں کسی حد تک شریک بھی رہا تھا خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کے پہا ڑی گاوں با لیم میں مجھے اپنے باپ کے سامنے قرآن پا ک کھول کر تعلیم حا صل کر نے کی سعادت حا صل ہو ئی پھر ان کے قدموں سے قدم ملا کر ایک کلو میٹر کے فا صلے پر سکول آنے جا نے کا مو قع ملا گھر پر جو میرا شفیق باپ تھا وہ سکول میں میر اسخت گیر استاد تھا گھر پر انکی شفقت سے لطف اندوز ہوتا تھا تو سکول میں ان کی سزا کا خوف دامن گیر رہتا تھا بیم و ر جا کی اس کشمکش میں میری پرورش ہوئی آج مجھے محسوس ہو تا ہے کہ شفقت کی اُمید کے ساتھ سزا کا خوف بہت ضروری تھا دونوں کا آپس میں گہرا تعلق تھا مجھے ان کی عملی زندگی کا وہ موڑ بہت یا د آتا ہے جب انجا نے میں انہوں نے قرآن پا ک کے ساتھ اپنے تعلق کا ذکر کیا اور اس تعلق نے اُن کی زند گی کا رُخ موڑ دیا 22سال کی عمر میں انہوں نے فوجی تر بیت مکمل کی۔ تر بیت کی تکمیل کے بعد پیریڈ گراؤنڈ میں کما نڈ نٹ میجر وائٹ کی مو جو دگی میں سوال ہوا کہ جن جو انوں نے تعلیم حاصل کی ہے وہ ہا تھ اٹھا ئیں میرے والد محمد اشرف نے ہاتھ اٹھا یا ہاتھ اٹھا نے والوں کو سامنے آنے کا حکم ہوا ہر ایک سے پو چھا گیا کتنی تعلیم ہے؟ ایک نے کہا ایف اے، ایک نے کہا میٹرک، چھ جوا نوں نے کہا پرائمری اور مڈل۔میرے والد نے کہا قرآن نا ظرہ پڑ ھ کے آیا ہوں پو چھنے والے صوبیدار نے کہا قرآن نا ظرہ تعلیم نہیں ہے واپس جا ؤ میجر وائٹ نے پو چھا کیا معا ملہ ہے ان کو بتا یا گیا کہ سکول کا کوئی سبق اس نے نہیں پڑھا قرآن نا ظرہ کو تعلیم قرار دیتا ہے میجر وائٹ نے کہا اس کو واپس نہ کرو تعلیم یا فتہ جو انوں میں شما ر کرو۔ چنا نچہ ان کا نا م سگنل میں لکھا گیا، پیریڈ کے بعد ایجو کیشن کے صو بیدار شہزادہ افضل ولی نے ان کو بلا یا اور کہا تم نے قرآن نا ظرہ کو تعلیم ثابت کیا اب میں تمہیں سکول کا سبق پڑ ھا ونگا اور تم بہت جلد مڈل کے برا بر قا بلیت پیدا کروگے۔چنا نچہ ایسا ہی ہوا شہزادہ افضل ولی کے نا م پر 1944میں پٹھا نکوٹ سے مو لا نا مو دودی کا لٹریچر ڈاک کے ذریعے آتا تھا دروش میں اشرف خا ن خلجی کے گھر پر درس قرآن اور درس حدیث کے حلقے قائم کئے گئے تھے اس طرح جما عت اسلا می کے ساتھ ان کا تعلق قائم ہوا جو آخر عمر تک قائم رہا، استور، تراگبل، گریز اور کارگل کے محاذوں پر میجر طفیل نشان حیدر کے ساتھ وائر لیس آپریٹر کی حیثیت سے ڈیو ٹی دی 1959ء میں فوجی ملا زمت سے ریٹائر منٹ کے بعد ریا ستی نظم و نسق میں سکول ٹیچر مقرر ہوئے انکے شاگردوں نے پا ک فو ج اور سول حکومت کے مختلف شعبوں میں نام پیدا کیا ان کی بیما ری کے دوران کرنل اکرام اللہ خان اور دور ولی خا ن نے انکے حالات زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے مضا مین شائع کئے ان کی بیماری صرف دو ہفتے کی علا لت تھی 11 جون کو عصر کے وقت اپنے خا لق حقیقی سے جا ملے زندگی کے آخری ماہ و سال انہوں نے مسجد اور مدرسہ کے لئے وقف کئے جہاں ان کے شاگردوں کی بڑی تعداد نے استفا دہ کیا دعوت القرآن‘خدام القرآن، صدیقی ٹرسٹ کے پلیٹ فارم پر مہدی محمد اور قاری فیض اللہ چترالی کے تعاون سے سینکڑوں طلباء کو دینی تعلیم سے آراستہ کیا جو کراچی لا ہور، پشاور اور چترال میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں میرے بھائیوں میں محمد اکرم قاری عطاء اللہ اور عطاء الرحمن نے ان کی تر بیت سے مقام حا صل کیا اللہ پا ک ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
اشتہار
مقبول خبریں
روم کی گلیوں میں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ترمیم کا تما شہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ثقافت اور ثقافت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
فلسطینی بچوں کے لئے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
چل اڑ جا رے پنچھی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ری پبلکن پارٹی کی جیت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی