9جون کو اقوام متحدہ کی ایک عدالت نے ”بوسنیا کے قصائی“سرب کمانڈر راتکو ملادوچ کی اپیل مسترد کرکے اسے دی گئی عمر قید کی سزا برقرار رکھی ہے۔ ملادوچ، جس کی عمر اب ستانوے برس ہے، کو بوسنیا میں جرائمِ مظالم (atrocity crimes)جن میں نسل کشی، نسلی صفائی، قتل وغارت گری، غیر متحارب افراد (جیسے سرائیوو کے محاصرے کے دوران) کو دہشت زدہ کرنا اور عام شہریوں پر غیر قانونی حملوں میں قصوروار ٹھہرایا گیا ہے اب وہ اپنی باقی زندگی جیل میں گزاریں گے۔1993 میں بنائے گئے سابقہ یوگوسلاویہ کیلئے ایک عالمی فوجداری ٹریبیونل نے 2017 میں ملادوچ کو سزا سنائی تھا جبکہ موجودہ اپیل بین الاقوامی بقیہ طریقہ کار برائے فوجداری ٹریبیونلز نامی اقوام متحدہ کی عارضی عدالت نے سنی جو ظلم کے بڑے جرائم والے مقدمات کیلئے قائم کیا گیا ہے۔ 2017 میں اقوام متحدہ کے ایک ٹریبونل نے ملادوچ کو نوے کی دہائی کے دوران بوسنیا میں ہزاروں مسلمانوں کی نسل کشی اور جنگی و خلافِ انسانیت جرائم کا مرتکب ہونے پر عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ اس نے اپنی سزا کے خلاف اپیل کردی مگر پانچ ججوں پر مشتمل پینل کے مطابق وہ اپنی پچھلی سزاں کو غلط ثابت کرنے اور ختم کرنے کیلئے کوئی ثبوت دینے میں ناکام رہا۔ملادچ سربرینیکا میں اس سرب فوج کا کمانڈر تھا جس نے جولائی 1995 میں اقوام متحدہ کی امن فوج کے ڈچ دستوں کے زیر حفاظت علاقے سربرینیکا میں آٹھ ہزار سے زیادہ مسلمان مردوں کو بے دردی سے شہید کیا، ہزاروں عورتوں کی بے حرمتی کی، زخمی و زندہ لوگوں کو اجتماعی قبروں میں بلڈوزروں کی مدد سے دفن کیا، بوسنیا کے دارالحکومت سراجیو کے محاصرے کے دوران 10 ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو مارا اور مسلمانوں کی ان کے آبائی علاقوں سے منظم بے دخلی اور نسلی صفائی میں ملوث رہی۔ ڈچ فوج نے مسلمانوں کی حفاظت نہیں کی اور نیٹو نے بھی فضائی حملے نہ کرکے سرب فوج کے ظلم و ستم کو روکنے میں مدد نہیں کی۔ ڈچ فوج نے اپنے کیمپ میں پناہ لینے والے ہزاروں مسلمانوں کو بھی مبینہ طور پر سرب فوج حوالے کر دیا۔ بعد میں اس وقت کی ڈچ حکومت اور فوجی عہدیداروں کو مظلوموں کو نہ بچانے کا مرتکب قرار دیاگیا جس کے بعد پوری حکومت کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔ بوسنیا میں اب بھی جگہ جگہ کھدائی کے دوران اجتماعی قبریں سامنے آجاتی ہیں۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کا بدترینِ قتلِ عام تھا اور اقوامِ متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کے بقول سربرینیکا کا المیہ اقوامِ متحدہ کیلئے ہمیشہ ایک بھیانک خواب بنا رہے گا۔راتکو ملادوچ 1995 میں جنگ ختم ہونے کے بعد زیر زمین چلا گیا تھا۔ وہ سزا سے بچنے کیلئے سولہ سال مفرور رہا اور اسے 2011 میں گرفتار کیا گیا۔۔ گرفتار ہوا تو اس نے اپنے جرائم سے انکار کیا، مقدمے کو مختلف حیلے بہانوں سے طول دیتا رہا، ٹریبونل اور عالمی عدالت کو دفاعی پوزیشن پر لے جانے کیلئے انہیں سربیا دشمن قرار دیا اور کبھی اپنے ظلم کی معافی نہیں مانگی لیکن جب سزا سنائی گئی تو اس کی آنکھیں نم تھیں کہ لمبی روپوشی، مسلسل غلط بیانیاں اور مقدمے کو طول دینے کے حیلے بہانے وغیرہ کوئی چیز بھی اسے سزا سے نہ بچا سکی۔ مقدمے کی سماعت کے دوران ملادوچ عدالت اور استغاثہ پر سرب مخالف ہونے کی پھبتیاں کستے رہے اور کہا کہ وہ تنہا اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ مقتولین اور مجروحین کے پسماندگان ملادوچ کے خلاف فیصلے کیلئے برسوں منتظر رہے اور بڑی تعداد میں فیصلہ سننے عدالت میں موجود تھے۔اگرچہ یہ سزا ملادوچ کے جرائم کے تناسب سے کم ہے مگر پھر بھی اس سے خطے بلکہ دنیا میں یہ پیغام گیا کہ انصاف میں تاخیر انصاف کا قتل نہیں ہے۔ یہ سزا مرحومین کے لواحقین کے دلوں کو کچھ حد تک تسکین پہنچائے گی اور ان جیسے سنگین جرائم کے مرتکبین کیلئے ایک مثال قائم کرے گی۔واضح رہے 1991 میں جب سوویت یونین تحلیل ہوا تو اس کا زیرتسلط یوگوسلاویہ سربیا، مونٹینیگرو، بوسنیا ہرزیگوینا، کروئشیا، مقدونیہ اور سلووینیا کی آزاد ریاستوں میں تقسیم ہوگیا۔ لیکن جیسے ہی بوسنیا نے 1992 میں آزادی کا اعلان کیا، سرب فوج نے اس پر حملہ کردیا۔ اس وقت کے برطانوی وزیراعظم جان میجر کی یہ بات مشہور ہوئی تھی کہ ہم یورپ کے وسط میں ایک مسلم اکثریتی ملک بوسنیا ہرزیگوینا کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ بوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی اور جبری بیدخلی شروع کی گئی۔ اقوام متحدہ کی امن فوج آئی جس میں پاکستان کی فوج بھی شامل تھی مگر پاکستانی فوج کے زیر نگرانی علاقے میں ہی صرف بوسنیائی مسلمان سرب فوج سے محفوظ رہے باقی جگہوں پر اقوام متحدہ ان کی حفاظت نہ کرسکی۔ پاک فوج کے اسی دلیرانہ کردار کی وجہ سے اس کا دو سال کا کنٹریکٹ مختصر کرکے اسے چھ مہینے بعد ہی واپس بھیج دیا گیا تھا۔ 1995 میں جنگ کے اختتام تک تقریبا ایک لاکھ افراد مارے جا چکے تھے۔ سربیا کا ظلم حد سے بڑھا اور یورپی ممالک اور امریکہ میں اس کے خلاف عوام نکل آئے تو پھر نیٹو نے فضائی بمباری کرکے سرب افواج کو جنگ ختم کرنے اور پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔اس فیصلے کے تحت 2017 کے فیصلے، جس میں ملادوچ کو سربرینیکا میں نسل کشی کا مرتکب پایا گیا تھا، میں دی گئی عمر قید کی سزا برقرار رکھی گئی تاہم اپیل ججوں کی اکثریت نے انہیں بوسنیا کے مسلمانوں کی 1992 کی نسلی صفائی اور نسل کشی کے ایک اور الزام سے بری کردیا۔ملادوچ سے پہلے 2016 میں عالمی عدالت نے سابق سرب رہنما رادووان کرادچ کو بھی سربرینیکا قتلِ عام میں ملوث ہونے پر پہلے چالیس سال سزا سنائی جسے 2019 میں عمر قید میں تبدیل کیا گیا۔ ایک اور مجرم سابق جنرل سلوبودان پرالجک کو 29 نومبر 2017 کو عالمی عدالت انصاف نے 1992 سے 1995 کے دوران مسلمانوں کے خلاف جنگی جرائم پر جب بیس سال قید کی سزا سنائی تو اس نے اسی وقت زہر پی کر خود کو ہلاک کردیا تھا ملادوچ کے خلاف تاریخی فیصلے سے بین الاقوامی سطح پر جنگی جرائم کے مقدمات کی سماعت ایک کیس کے سوا ختم ہوگئی ہے۔ 1993 سے بوسنیا، کروشیا اور سربیا کے 161 افراد پر جرائمِ مظالم کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ان میں نوے مدعا علیہان کو سزا سنائی گئی، انیس کو بری کردیا گیا جبکہ پچاس دیگر افراد کے الزامات خارج ہوگیے یا وہ فیصلہ سنانے سے پہلے ہی مرگئے۔ 23 سیاسی مجرم اور فوجی قائدین ابھی طویل سزا کاٹ رہے ہیں۔ مشترکہ جرائم کے ایک ادارے، جو نسلی صفائی مہم اور سربرینیکا نسل کشی کا منصوبہ بنا وچلا رہی تھی، کے دوارکان جویکا اسٹینیزک اور فرانکو سیماٹوچ، پر مقدمہ ابھی جاری ہے۔اس بریت کیلئے نسل کشی کی محدود تعریف کرکے نسل کشی کے جرم کے معنی اور وسعت کم ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے اور مستقبل میں اس الزام کے ہر مقدمے میں کسی کو سزا دینا مشکل بن گیا ہے۔