ایران صدارتی انتخابات:حرفِ آخر۔۔۔

جمہوری اِسلامی اِیران میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں ابراہیم رئیسی نے بھاری اکثریت سے فتح حاصل کر لی ہے جس کے بعد سے پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک کے سربراہان کی جانب سے مبارکبادوں کا سلسلہ جاری ہے۔وزیرِ اعظم عمران خان نے ابراہیم رئیسی کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں کہا کہ ”اسلامی جمہوریہ ایران کے 13ویں صدارتی انتخابات میں تاریخی فتح سمیٹنے پر میں عزت مآب برادر ابراھیم رئیسی کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ دونوں ممالک کے مابین برادرانہ تعلقات میں مزید پختگی‘ علاقائی امن‘ ترقی اور خوشحالی کے حصول کیلئے پاکستان نئے صدر کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے۔“ ایران کے صدراتی انتخابات (اٹھارہ جون) میں چند سیاسی مخالفین اور ایران میں اصلاحات  کے خواہشمندوں نے حصہ نہیں لیا اور یہی وجہ ہے کہ مجموعی ووٹ ڈالنے کی شرح پچاس فیصد سے کم رہی لیکن اِس بارے میں سرکاری طور پر اعدادوشمار جاری نہیں کئے گئے۔ اگر حتمی نتیجے کے ساتھ پولنگ کے اعدادوشمار جاری کئے جاتے ہیں اور یہ مجموعی طور پر پچاس فیصد سے کم ہوتی ہے جیسا کہ مغربی ذرائع ابلاغ دعویٰ کر رہے ہیں مجموعی پولنگ کی شرح 48 فیصد ہے تو یہ سال 1979ء کے انقلاب اسلامی کے بعد سب سے کم شرح ِپولنگ ہوگی جبکہ 2017ء کے صدراتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح 73.33فیصد اور اِس سے قبل کم ترین شرح 1993ء کے صدراتی انتخابات میں 50فیصد دیکھنے میں آئی تھی۔
ابراہیم رئیسی ایران کے منصف اعلیٰ (چیف جسٹس) کے منصب پر فائز رہے ہیں۔ اُن پر انفرادی طور سے امریکہ نے متعدد پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جس کی وجہ یہ الزام ہے کہ اُنہوں نے انقلاب اسلامی کے سیاسی مخالفین کو پھانسیاں دیں۔ رہبر معظم کے بعد ایران میں صدر کا عہدہ سب سے بڑا ہوتا ہے۔ اگرچہ صدر کا داخلہ اور خارجہ پالیسی پر گہرا اثر و رسوخ ہوتا ہے مگر سپریم لیڈر یعنی رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کی ہر ریاستی معاملے پر رائے ہی ’حرف آخر‘ سمجھی جاتی ہے‘ جس کی وجہ سے فرق نہیں پڑتا کہ صدر کون ہے اور وہ ملکی امور یا عالمی تعلقات کے بارے کس قدر سخت گیر مؤقف رکھتا ہے۔ ساٹھ سالہ ابراہیم رئیسی نے دوہزارسترہ کے انتخابات میں بھی بطور اُمیدوار حصہ لیا تھا لیکن وہ حسن روحانی کے مقابلے ہار گئے تھے۔سیاسی طور پر اِیران میں تبدیلیاں آ رہی ہیں‘ جو اگرچہ نہایت ہی سست رفتار ہیں لیکن 13ویں صدراتی اِنتخابات میں کم شرح پولنگ سے عیاں ہے کہ اُن سبھی آوازوں کو‘ جنہیں ماضی میں نہیں سنا جاتا تھا لیکن اب عام ایرانیوں کی توجہ مل رہی ہے اور شاید اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلسل عالمی پابندیوں کی وجہ سے ایران میں مہنگائی و بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تصور کریں کہ ایک امریکی ڈالر کا ایرانی کرنسی سے شرح تبادلہ ’42 ہزار 105 ریال‘ ہے۔ 1979ء میں انقلاب اسلامی کے وقت 1 ڈالر 70 ایرانی ریالز کے مساوی تھا جبکہ ایران میں مہنگائی کی شرح ساڑھے چھتیس فیصد سے زیادہ ہے!
 سخت گیر خیالات والوں کو امریکہ اور اِس کے اتحادی مغربی ممالک شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر ابراہیم رئیسی اور رہبر معظم علی خامنہ ای ایران کی جوہری پروگرام کے عالمی معاہدے میں واپسی کے خواہاں ہیں۔ 2015ء میں ایران نے جس جامع حکمت عملی پر دستخط کے ذریعے جوہری سرگرمیاں محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا اُس کی وجہ سے ایران کو عالمی پابندیوں میں ریلیف ملا تھا لیکن صدر ٹرمپ کے دور (2018ء) میں امریکہ نے اس معاہدے سے یک طرفہ طور پر علیحدگی کا اعلان کیا اور اِس کے بعد ایران پر پہلے سے زیادہ سخت پابندیاں عائد کر دی گئیں جو تاحال جاری ہیں۔ ان پابندیوں کی وجہ سے عام ایرانیوں کی زندگی پر سخت اثرات مرتب ہوئے‘ جس سے بڑے پیمانے پر عدم اطمینان پایا جاتا ہے‘ جو دنیا کے شانہ بشانہ ترقی اور دیگر اسلامی ممالک کی طرح ایران کے بھی عالمی تعلقات معمول پر رواں دواں دیکھنا چاہتے ہیں۔